کچنار یا کچنال کا آبائی وطن ہندوستان سمجھا جاتا ہے ۔ کچنار گرم آب و ہوا میں زیادہ پھیلتی اور پھولتی ہے۔ کچنار کی افزائش تخم ریزی کے علاوہ پیوند کاری سے بھی ہوتی ہے۔مارچ کے مہینے میں اس کے پتے گرنے شروع ہو جاتے ہیں۔اور پھول کی کلیاں موسمِ بہار کی آمد کی اطلاع دیتی ہیں۔کچنار کے پیٹر گھروں، پبلک پارکوں ، جنگلات اور شہروں میں سڑکوں کے کناروں پر لگائے جاتے ہیں تاکہ لوگ ان کی خوب صورتی سے محظوظ ہو سکیں۔
شعرا ے کرام نے کچنار کی کلی کوا یک حسین وجمیل دو شیزہ سے تشبیہ دی ہے۔ کچنار کی لکڑی بڑی مضبوط ہوتی ہے جس کی آیورویدک اور طبِ یونانی میں بہت اہمیت ہے۔ کچنار کے پھول، پتے ،چھال اور جڑ زمانہ قدیم سے آیورویدک اور طبِ یونانی میں ادویہ بنانے میں استعمال کیے جا رہے ہیں۔کچنار کی کلیاں تنہا یا قیمے کے ساتھ پکائی جاتی ہیں۔جوکافی ذائقے دار ہوتی ہیں۔کچنار میں حیا تین لف، ب اور ج (وٹامنز اے ،بی اور سی) کی اچھی خاصی مقدار ہوتی ہیں اور دیگر مفیدِ صحت اجزا بھی ہوتی ہیں۔
کچنار کے پھول اور کلیوں کے علاوہ چھال اور جڑکی بھی کافی اہمیت ہے اس کے تنے کی چھال قبض پیدا کرتی ہے مگر طاقت بخش ہوتی ہے۔ یہ پیٹ کے کیڑوں کو خارج کرتی ہے۔ جذام اور معدے کے زخم کے مریضوں کو یہ بطور دو ا دی جاتی ہے۔ اس کی جڑ صفراسی کیفیت میں بھی دی جاتی ہے۔ مرد اور خواتین کی مخصوص جنسی بیماریوں کے علاج میں بھی کام آتی ہے۔ خون صاف کرتی ہے۔ دمے کے علاج اور ماوٴتھ واش کے طورپر بھی استعمال کرائی جاتی ہے ۔ معدے میں ریاح پیدا ہونے سے روکتی ہے۔
کچنار کی چھال خون کے اخراج کو روکتی ہے۔ اس کا جو شاندہ فربہی کو کم کرتا ہے۔ ی فسادِ خون کا بہترین علاج ہے اور بواسیر کے مرض میں کچنار کا کھانا بے حد مفید ہے۔ پیشاب کے امراض دُور کرنے میں کچنار کی سبزی کھانے سے فائدہ ہوتا ہے۔ یہ اچار بہت مزے دار ہوتا ہے۔
کچنار دیر سے ہضم ہوتی ہے لہٰذا معالجین کہتے ہیں کہ اسے بغیر ادرک اور گرم مصالحے کے نہیں کھان چاہیے۔ اس کی سبزی میں دہی اور زیرہ ملانے سے اس کے نقصان دہ اثرات دُور ہو جاتے ہیں۔ شہید حکیم محمد سعید نے لکھا ہے کہ کچنار سب نقصانات کی اصلاح کر دیتی ہے۔
کچنار میں بہت سی خوبیاں ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پر مزید تحقیق ہو، تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کچنار سرطان اور ذیابیطس کے ارمراض ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے یا نہیں۔