تحریر : اقبال زرقاش
دنیا کی کوئی قوم اس وقت تک پھل پھول نہیں سکتی جب تک اس میں فکری یگانگت اور ہم آہنگی نہ ہو اگر سوچ کی یکسانیت ختم ہو جائے تو وہ قوم خزاں دیدہ پتوں کی طرح ٹوٹتی ،اُڑتی ،گرِتی اور بکھرتی نظر آئے گی۔مسلمانوں کا تعلق کسی خاص خطہ ء ارض سے نہیں وہ ایک ایسے دین کے پیروکار ہیں جو آفاقی اور عالمگیر ہے۔
ایک مسلمان کا نقطہ نظر وسیع ہونا چاہیے اگر وہ خود کو محدود کر کے رہ گیا تو وہ کائنات کی رہنمائی کا فرض ادا نہ کر پائے گا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں زبان ،لباس اور رنگ و نسل کے فرق کو ہوا دے کر تعصبات کا پر چار کیا جا رہا ہے جو کہ ملکی سا لمیت کے لیئے زیر قاتل سے کم نہیں ہیں۔
ہم نسل اور ذات پات کے اس قدر پابند ہو گئے ہیں کہ اس محدود دنیا سے ہم باہر نہیں نکل پا رہے روز بروز وطن عزیز کی فضا اُنس و محبت کی خوشبو سے خالی ہوتی جا رہی ہے اور کبھی کبھی تو یوں محسوس ہو تا ہے کہ پورا گلستان شعلوں کی زد میں ہے کراچی جو کل تک امن و سکون کا گڑھ اور تجارت کا ایک بڑا مرکز تھا ہر شہر اور ہر علاقے کے لوگ روزگار کی تلاش میں اس شہر کا رُخ کرتے تھے اور اس شہر نے ہر رنگ و نسل اور زبان کے افراد کو اپنے اندر سمیٹا ہو ا تھا روشنیوں کا یہ شہر علاقائی تعصبات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
کہیں سے مہاجروں کی صدا بلند ہوئی کہیں سے پختونوں کی کہیں سے بلوچوں کی کہیں سے سندھیوں کی اور کہیں سے پنجایوں کی اور نتیجہ یہ نکلا کہ یہ شہر آگ اور خون سے رنگین ہو گیا ہم ایک دین واحد کے پرستار ہوتے ہوئے بھی دنیا کے سامنے عبرت کا نقش بنتے جا رہے ہیں ہمارے پاس اتحاد کا جو ذریعہ ،یقین کا جو واسطہ ، ایمان کا جو مرکز اور فکر کا جو محور ہے وہ کسی دوسرے ملک یا کسی دوسری قوم کے پاس نہیں ضرورت صرف بھولے ہوئے سبق کو یاد کرنے کی ہے اسلام کو اپنی عملی زندگی میں لانے کی ہے صرف باتوں ،دعاؤں اور آنسوؤں سے قوموں کی تقدیریں نہیں بدلا کرتیں ہم اسلام کے آفاقی نظریے پر عمل پیرا ہو کران تعصبات کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔
لسانی بنیادوں پر بننے والی سیاسی جماعتوں اور گروپوں سے نکل کر ہمیں ملکی سا لمیت پر توجہ دیں ۔ماضی قریب میں مشرقی پاکستان میں زبان ،لباس اور رنگ کے اسی فرق کو ہو ا دی گئی اور مخالف قوتوں نے وہاں کے بچے بچے کو پاکستان کا دشمن بنا دیا نتیجہ یہ ہو ا کہ وطن ٹوٹا اور اس کے ٹوٹنے سے ہزاروں لاکھوں دل ٹوٹے ہزاروں نگاہیں اشکبارہوئیں اور ہزاروں فریادیں آسمان کے دروازوں سے ٹکرائیں مگر تاریخ نے ثابت کر دیا کہ جب کوئی قوم اپنے نظریاتی مرکز سے الگ ہوتی ہے تو اس کے دل سے نکلنے والی کوئی دعا ،آنکھوں سے ٹپکنے والا کوئی سا آنسو اور روح کی گہرائیوں سے ابھرنے والی کوئی سی فریا د بھی تباہی سے نہیں بچا سکتی اور ٹوٹنا پھوٹنا اس کا مقدر ہو جایا کرتا ہے۔
آج ہمارے ملک کے چاروں صوبوں میں جو آپس میں نفرتوں کے بیج بوئے جارہے ہیں اس کا مقصد بھی ہم کو منتشر کرنا ہے ایک بھائی کو دوسرے بھا ئی سے لڑایا جا رہا ہے کوئی دن خالی نہیں جب کوئی ناخوشگوار خبر اخبارات اور ٹی وی چینل کی زینت نہ بن رہی ہو ہم اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ ہم کو موجودہ ملکی حالات کی پروا تک نہیں ہم یقیناحرف غلط کی طرح مٹ جائیں گے اور ہماری داستان بھی نہ ملے گی۔داستانوں میں ابھی بھی وقت ہے کہ ہم علاقائی تعصبات سے باہر نکل کر اس ملک کی سا لمیت اور بقاء کے لیئے اپنے حصے کا کردار اد اکریں۔
تحریر : اقبال زرقاش