تحریر: محمد یحییٰ مجاہد
موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ہر ذی روح کو ایک دن اس دنیا سے جانا ہے۔ہر کسی کا اپنا اپنا وقت مقرر ہے اور مقررہ وقت سے ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں ہو سکتی۔میںاخبارات کا مطالعہ کر کے ابھی گھر سے دفتر جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ اپنے ہمیشہ سے خاموش موبائل کی سکرین پر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ برادر نجم الحسن عارف کی کال آئی ہوئی تھی۔ایک انجانے خوف کے ساتھ واپس کال کی تو انہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ آپ کو کسی نے بتایا نہیں؟میں نے اگلے لمحے کہا کہ کیاتو انہوں نے بھی وقفے کے بغیر کہا کہ غوری صاحب فوت ہو گئے ہیں ۔میرے اوسان خطا ہو گئے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے نجم الحسن عارف صاحب سے تعزیتی کلمات ادا کرتے ہوئے کال منقطع کی ۔انا للہ وانا الیہ واجعون۔
دوستوں کے دوست ہم سے جدا ہو گئے۔ رفیق غوری مرحوم سے میری رفاقت دوعشروں سے زیادہ محیط تھی ۔وہ صحافت میں میرے استاد تھے۔ رفیق غوری کا شمار پاکستانی صحافت میں ایک معتبر ،جرآت مند، دلیر اوربے باک صحافیوں میں ہوتا تھا ،انکی ان صفات کی وجہ سے انہیں اور ان کے اہل خانہ کو زندگی کے کئی سالوں تک شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ،لیکن اس کے باوجود وہ کسی صورت بھی ان اصولوں پر سمجھوتا کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔صحافت میں وہ کمپرومائزنگ لائف (Compromising Life)کے قائل نہ تھے۔انہوں نے صحافت کے آغاز میں آغا شورش کاشمیری مرحوم کے ساتھ مل کر کام کیا اوروہ آغا شورش کاشمیری کا قریبی ساتھی تھے ، اپنے کالموں میں ملکی سیاسی ،معاشی اور سوشل حالات پر ہمیشہ بڑے جاندار انداز میں اپنا نقطہ نظر کسی لگی لپٹی کے بغیر بیان کرتے۔
مرحوم نظریہ پاکستان اور ختم نبوت کے سپاہی تھے۔نظریہ پاکستان اور پاکستان سے انکی کمٹمنٹ نے انہیں پاکستان کے نظریاتی صحافیوں کی صف میں ممتاز مقام عطا کیا۔وہ دین سے محبت کرنے والے اورختم نبوت کے تحفظ کے لئے مر مٹنے کا عزم رکھتے تھے۔اپنی تحریروں کے ذریعے فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے ۔مرحوم اپنے دوستوں سے سگے بھائیوں جیسا پیا ر کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ صحافیوں کا انکے ساتھ گہرا تعلق تھا۔وہ ایک بااصول،خوددار،بلند حوصلہ،سفید پوش انسان تھے۔صحافت میں کمپرومائیز نہ کرنے والے رفیق غوری انتہائی شفیق،ملنسار اور مہمان نواز تھے۔شہر لاہور کی ادبی محفلوں کی رونق رفیق غوری مرحوم ہمیشہ مہمان نوازی میں پہل کرتے تھے ۔اپنی اس صفت کی وجہ سے بعض اوقات رات گئے ان کو گھر کی طرف پیدل سفر طے کرنا پڑتا تھا۔
میرے ساتھ تو ان کا ایسا محبتوں والا تعلق تھا کہ ملتے ہی خاص لاہوری اندار سے مجھے پوچھتے کہ مولوی صاحب (تسی کڑیل او کہ مکیشن او)یعنی آپ کے پاس پیسے ہیں یا نہیں؟میں جب کہتا کہ ( میں مکیشن آں)یعنی جیب خالی ہے تو اپنی جیب سے پیسے نکال کر مجھے دکھاتے اور کہتے کہ مولوی صاحب فکر نہیں کرنی آج کسی ظالم ہوٹل سے کھانا کھاتے ہیں۔پھر مجھے لاہور شہر کے پانچ ستارہ ہوٹل میں کھانا کھلاتے ،چائے پلاتے اور ہوٹل میں دیگر لوگوں پر اپنے امیر زادہ ہونے کا رعب اور دبدبہ ڈالتے رہتے یہ سلسلہ ویٹر کو بل ادا کرتے تک جاری رہتا۔
میں شوگر کے علاج کے لئے چار ماہ گنگا رام ہسپتال میں زیر علاج رہا تو غوری صاحب بلا ناغہ اپنی علالت کے باوجود روزانہ ہسپتال عیادت کے لئے آتے اور گھنٹوں بیٹھے رہتے ۔عیادت کے لئے آنے والے دیگر احباب کے ساتھ گپ شپ کرتے رہتے اور مجھے بھی حوصلہ اور صبر کی تلقین کرتے رہتے۔اپنی زندگی کے آخری سالوں میں جناب مشاہد حسین سید،اور جناب محمد علی درانی کی کوششوں سے وہ پاکستان ٹیلی ویژن میں تحریک پاکستان کے حوالہ سے ایک پروگرام کے اینکر بن گئے تھے۔وہ ہمیشہ دوسروں کے حقوق کی بات کرتے تھے ۔کسی کی مشکل کو آسان کرتے کرتے خود مشکلات کا شکار ہو جاتے تھے۔پی ٹی وی نے گزشتہ پانچ برس سے انہیں تنخواہ نہیں دی تھی ۔اب رفیق غوری کی وفات کے بعد پی ٹی وی انکا مقروض ہے۔انہوں نے اپنے کالموں میں جہاں حکمرانوں کے خلاف لکھا وہیں کشمیر میں جاری بھارتی مظالم،بھارت میں اقلیتوں پر مظالم کو بھی بے نقاب کیا۔ اپنے ایک کالم میں انہوں نے تحریر کیا کہ” رہی بات بھارتی منڈی کی تو یہ انسانی جسموں کے اعضا، انسانی عزت و عفت اور جذبات کی منڈی تو ہو سکتی ہے۔
لیکن جس ملک میں مشہور زمانہ ریل وزیر لالو پرشاد بھینسوں کے چارے تک میں کرپشن کر لے، جس ملک کے آنجہانی وزیراعظم راجیو گاندھی کا نام بوفورس گنوں کے سلسلے میں کمیشن کھانے کے الزامات کی زد میں رہا ہو اور جہاں کے فوجی سربراہ تک اپنی پیدائش کی تاریخ میں ہیرا پھیری کی وجہ سے مشہور ہوں وہاں کی منڈی سے دنیا کی ملٹی نیشنل کمپنیاں کب تک آسودہ رہ سکیں گی۔جس ملک نے سوا کروڑ کے قریب کشمیریوں کوحق خود ارادیت سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود محروم کر رکھا ہے، اپنے بدنام زمانہ ٹاڈا کے قانوں کے ساتھ ہزاروں کشمیریوں کو لاپتہ کرنے سے لے کر حراستی عقوبت خانوں اور تفتیشی صعوبت خانوں میں ہزار ہا کشمیریوں کو شہید کیا اور ہزاروں کو معذور بنا دیا ، اب کشمیری نوجوانوں کو تالی بجانے پر غداری کے مقدمات میں دھر لیا جاتا ہے، کرکٹ میچ میں اپنی پسند کی ٹیم کے حق میں نعر ے لگانے پر تعلیم کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ ایسا بھارت جمہوریت کی شاخ نازک پر کب تک بڑی بھارتی منڈی کا گھونسلہ بنائے بیٹھا رہ سکے گا”۔
مرحوم کی نماز جنازہ کے حوالہ سے برادر عزیز نجم الحسن عارف نے میری رائے کا احترام کرتے ہوئے ان کی نماز جنازہ مرکز القادسیہ میں طے کی۔مغرب کی نماز کے بعد نمازجنازہ جماعة الدعوة کے مرکزی رہنما حافظ عبدالرحمان مکی نے پڑھائی۔اس موقع پر ان کے صاحبزادوں ،بھائیوں،رشتہ داروں کے علاوہ دوست احباب جو ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے نے آہوں اور سسکیوں کے ساتھ سفر آخرت پہ روانہ کیا۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے۔آمین
تحریر:محمد یحییٰ مجاہد
mujahidkiazaan@gmail.com