تحریر : سلطان حسین
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق قیاس آرائیوں کی تردید کرتے ہوئے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا انہوں نے یہ اعلان کرتے ہوئے ایک بار پھر خود کو نمبرون منوالیا عالمی سطح پر تو انہیں پہلے ہی نمبر ون قرار دے دیا گیا تھا ان کی ریٹائرمنٹ کے اعلان پر میرے ایک ساتھی نے میری طرف دیکھا میں نے اس خبر پرردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جنرل راحیل شریف نے قیاس آرائیاں کرنے والوں کے منہ میں” تعویز دے دیا”ساتھی میری طرف وضاحت طلب نظروں سے دیکھنے لگے میں نے ان کو ایک لطیفہ سنایا ایک عورت ایک پیر صاحب کے پاس گئی اور کہا کہ ”بابا میرا شوہر جب بھی گھر آتا ہے مجھے مارتا پیٹنا شروع کر دیتا ہے ”۔ پیر بابانے اسے ایک تعویز دیتے ہوئے کہا ”وہ جونہی گھر آئے تو تم یہ تعویز دانت کے نیچے دبا لیا کرؤ ۔ پانچ دن بعد جب وہ عورت بابا جی کے پاس دوبارہ آئی تو کہا ”بابا جی تعویز کا اتنا فائدہ ہوا کہ اب وہ مجھے کچھ نہیں کہتا ” باباجی نے اس سے کہا ”یہ فائدہ تعویز سے نہیں بلکہ زبان بند رکھنے سے ہوا ہے جس طرح پیربابا نے اس عورت کو تعویز دے کر زبان بند کرادی تھی۔
اسی طرح آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کا اعلان کرکے قیاس آرائیاں کرنے والوں کے منہ میں بھی تعویز دے کر ان کی زبان بندکرادی 29 نومبر2013 کو جب جنرل اشفاق کیانی تین سال کی توسیع کے بعد ریٹائرڈ ہوئے تو ان کی ریٹائرمنٹ سے بڑے خدشات ظاہر کئے جارہے تھے عام خیال یہی تھا کہ ایک ایسے موقع پر جب کہ قوم دہشتگردی کی جنگ لڑرہی ہے ان کی ریٹائرمنٹ سے حالات میں جو تھوڑی بہت بہتری آرہی ہے اس میں فرق آئے گا لیکن جب جنرل راحیل شریف نے آرمی چیف کا عہدہ سنبھالا تو انہوں نے ان تمام خدشات کو غلط ثابت کر دیا راحیل شریف16 جون 1956 کو کوئٹہ کے ایک ممتاز فوجی گھرانے میں پیدا ہوئے ان کے والد بھی فوج میں میجر تھے میجر محمد شریف۔ان کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف 1971کی پاک بھارت جنگ میں شہید ہوئے اور انہیں نشان حیدر ملاوہ تین بھائیوں اور دو بہنوں میں سب سے چھوٹے ہیں
ان کے دوسرے بھائی، ممتاز شریف، فوج میں کیپٹن تھے-وہ میجر راجہ عزیز بھٹی، جنہوں نے1965کی بھارت پاکستان جنگ میں شہید ہو کر نشان حیدر وصول کیا ،کے بھانجے ہیںراحیل شریف کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔راحیل شریف نے گورنمنٹ کالج، لاہور سے باقاعدہ تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد پاکستان ملٹری اکیڈمی میں داخل ہوئے وہ اکیڈمی کے 54ویں لانگ کورس کے فارغ التحصیل ہیں1976 میں گریجویشن کے بعد، انہوں نے فرنٹیئر فورس رجمنٹ، کی6thبٹالین میں کمیشن حاصل کیا- نوجوان افسر کی حیثیت سے انہوں نے انفنٹری بریگیڈ میں گلگت میں فرائض سرانجام دئیے ایک بریگیڈیئر کے طور پر، انہوں نے دو انفنٹری بریگیڈز کی کمانڈ کی جن میں کشمیر میں چھ فرنٹیئر فورس رجمنٹ اور سیالکوٹ بارڈر پر26فرنٹیئر فورس رجمنٹ شامل ہیں۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں میجر جنرل راحیل شریف کو گیارہویں انفنٹری بریگیڈ کا کمانڈر مقرر کیا گیا۔
راحیل شریف ایک انفنٹری ڈویژن کے جنرل کمانڈنگ افسر اور پاکستان ملٹری اکیڈمی کے کمانڈنٹ رہنے کا اعزاز بھی رکھتے ہیںراحیل شریف نے اکتوبر 2010سے اکتوبر2012تک گوجرانوالہ کور کی قیادت کی انہیں جنرل ہیڈ کوارٹرز میں انسپکٹر جنرل تربیت اور تشخیص رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔27نومبر2013کو وزیر اعظم نواز شریف نے انہیں پاکستانی فوج کا سپاہ سالار مقرر کیا ان کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ راحیل شریف سیاست میں عدم دلچسپی رکھتے ہیںانہیں دو سینئر جرنیلوں، لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم اور لیفٹیننٹ جنرل راشد محمود پر فوقیت دی گئی تھی ایک سینئر جنرل لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم نے اسی وجہ سے فوج سے استعفٰی دے دیاتھا ایک اور سینئر جنرل، لیفٹیننٹ جنرل راشد محمود کو بعد ازاں چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی مقرر کر دیا گیا20دسمبر 2013کو راحیل شریف کو نشان امتیاز(ملٹری)سے نوازا گیا۔
راحیل شریف نے جس وقت پاکستانی آرمی کی کمانڈ سنبھالی تو ملک میں امن و امان کی صورتحال انتہائی ابتر تھی۔انھوں نے دہشت گردوں کے خلاف سخت موقف اختیار کیا اور سانحہ پشاور کے بعد پاکستان آرمی نے تمام تر ملک دشمن قوتوں کے خلاف بلا تفریق کاروائیاں کی۔اس سے امن و امان کی صورتحال میں بہتری آنے لگی اور راحیل شریف ملک میں ایک مقبول آرمی چیف کی حیثیت سے ابھرے حالیہ ایران سعودیہ کشیدگی میں وہ بھی وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کم کرانے کیلئے دورے پر تھے۔راحیل شریف ایک آرمی چیف کی حیثیت سے 20نومبر2016تک خدمات انجام دیں گے۔
انکے عہدے کے دورانیے میں توسیع کے حوالے سے زیر گردش افواں پر انھوں نے آئی ایس پی آر کے ذریعے اعلان کیاہے کہ “پاکستانی فوج ایک عظیم ادارہ ہے۔ میں ایکسٹینشن میں یقین نہیں رکھتا۔جنرل راحیل نے جب حلف اٹھایا تو ملک دہشتگردی کی لپیٹ میں تھا اور اس سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی ملک کے مستقبل کے حوالے سے بھی شکوک و شہبات کا اظہار کیا جارہا تھالیکن انہوں نے ایک مدبر جنرل کی طرح اس صورتحال سے نمٹنے کی کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے ان کی تعیناتی کے وقت جہاں انہیں بھی ایک عام آرمی چیف سمجھا جانے لگا تھا وہاں سیاسی لیڈروں کو بھی ان سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔
لیکن جوں جوں ان کے اقدامات سامنے آنے لگے تو ایک طرف اگر ملک سے دہشتگردی میں کمی آنے لگی وہاں سیاستدان بھی” خطرہ”محسوس کرنے لگے اور ان کے خلاف ایک محاذ بنالیا اور بیرونی طاقتوں نے بھی ان کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کردیا لیکن چونکہ انہیں عوام کی حمایت حاصل تھی اس لیے ان کے خلاف تمام سازشیں ناکام ہوگئیںکہتے ہیں کہ شادی کی ایک تقریب میں ایک جن آگیا تھا جن کو دیکھ کر لڑکیوں کی چیخیں نکل گئیں ایک بابا جی نے لڑکیوں کو وضو کرنے کا مشورہ دیا لڑکیاں وضو کرکے آئیں تو جن کی چیخیں نکل گئیں جنرل راحیل بھی کرپٹ سیاستدانوں کے لیے ایک جن ثابت ہوئے اور ان کے اقدامات سے ان کرپٹ سیاستدانوںکی چیخیں نکل گئیں۔
اکسی نے دبئی میں پناہ لینے کی کوشش کی اور کسی نے امریکہ میں جائے پناہ تلاش کی کوئی ملک میں ہی بچاؤ کی تدبیریں کرنے لگا اب جبکہ انہوں نے توسیع نہ لینے کا اعلان کر دیا تو ان کرپٹ سیاستدانوں نے سکون کا سانس لیا اور سب سے پہلے ان کے ریٹارمنٹ کے اعلان کا خیرمقدم کیا لیکن جہاں تک عام آدمی کا تعلق ہے۔
انہیں اس فیصلے سے اختلاف ہے اور وہ کچھ مدت تک انہیں مزید دیکھنا چاہتے تھے لیکن مزید رہنا اور نہ رہنا ان کا ذاتی فیصلہ ہے اور حکومت کے درمیان معاملہ ہے اب جبکہ جنرل راحیل شریف نے جانے کا فیصلہ تو کر ہی لیا ہے اللہ کرئے ان کا جو جانشین آئے وہ اسی طرح ان کا مشن جاری رکھے جس طرح جنرل راحیل نے شروع کیا تھا۔
تحریر : سلطان حسین