تحریر : خضر حیات تارڑ
برلن بیورو کے مطابق PATجرمنی کے نامزد سینئر نائب صدرخضر حیات تارڑ نے ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے حکمرانوں کے خلاف اعداد و شماراور پانامہ لیکس میں مطابقت کو واضح کیا ہے،جوبشکریہ اپنا انٹرنیشنل شائع کیا جارہا ہے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا مالیاتی سکینڈل پانامہ لیکس کی صورت میں منظر عام پر آنے سے کئی نقاب پوش چہرے بے نقاب ہوئے۔اب سوال یہ ہے کہ کیاملک کو عالمی دنیا میں بدنام کرنے والوں کو حکومت کرنے کا حق پہنچتا ہے؟کیا یہ انصاف ہے؟کیا ہم باغیرت قوم ہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے بیداری شعور مہم کے ذریعے ”مفادات کی سیاست نہیں ریاست بچائو” کے نعرے کے ساتھ دسمبر٢٠١٢ء سے لے کر اکتوبر ٢٠١٤ء دھرنے کے اختتام تک بالخصوص اس سیاسی و معاشی دہشتگردی کے ذمہ داران کرپٹ حکمرانوں کے چہروں کو بے نقاب کیا۔ آپ نے ان مسائل کے اسباب کے بارے میں بھی قوم کو آگاہ کیا۔
پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان مسائل کے خاتمے کیلئے عملی طور پر میدان میں نکلے۔اس موقع پر پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان نے اس ملک اور عوام کیلئے جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔آج ملک میں دہشتگردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ اور معاشی دہشتگردوں و بد دیانت حکمرانوں کی گرفت کے بارے میں۔ ہربات پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان کی قربانیوں کی ہی مرہون منت ہے۔
وگرنہ قائد انقلاب ڈاکٹر طاہر القادری کی انقلابی جدوجہد سے قبل راوی حکمرانوں کیلئے ہر طرف چین ہی چین لکھتا تھا۔آج دہشتگردی اور کرپشن کے خاتمے کیلئے جو کچھ ہو رہا ہے وہ پاکستان عوامی تحریک کی دی ہوئی سوچ کا ہی نتیجہ ہے۔ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے الیکشن سے قبل جوکہا تھا بعد از الیکشن سب نے اس کو تسلیم کیا کہ ڈاکٹر طاہر القادری ٹھیک کہتے تھے۔
دھرنے کے دنوں میں نام نہاد قومی لیڈرشپ کی کرپشن،منی لانڈرنگ،بھتہ خوری،لاقانونیت اورمفادپرستی سے متعلق PATکے چیئرمین ڈاکٹر طاہر القادری نے جتنے بھی اعدادو شمار دئے تھے، آج ملکی ادارے ان کی تصدیق کر رہے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ کرپشن کے ناسور کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔
ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دی جائے اور قوم کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس لایا جائے۔قومی لٹیروں عوام دشمنوں،معاشی دہشتگردوں اورمعروف بھگوڑوںکو اب بھاگنے کا موقع نہ دیا جائے۔اس کرپٹ مافیا کے خلاف بے رحمانہ احتساب کر کے عوام پاکستان کو ان سے نجات دلانے کا یہ بہترین موقع ہے۔حکمرانوں اور اشرافیہ کا احتساب قوم کا اولین مطالبہ ہے۔
تحریر : خضر حیات تارڑ