جنرل راحیل شریف ریٹائرمنٹ کے کچھ عرصہ بعد سعودی عرب گئے تو ساتھ ہی ا فواہوں اور تبصروں کا بازار گرم ہو گیا۔
پاکستانی قوم میں پہلے تو پیشہ وار جگت باز تھے، اب یہ پیشہ ور ہاتھ ملتے رہ گئے ہیں کہ یہاں تو ہر کوئی ان کا دھندہ لے اڑا۔
جنرل راحیل شریف یوں تو ہمیشہ ہی فائر کی زد میں رہے، پہلے کہا گیا کہ وہ بھی شریف ہیں اور وزیر اعظم بھی شریف، اس لئے فیملی کا بندہ آرمی چیف بنا دیا گیا۔
پھر یہ ریسرچ جاری رہی کہ وزیر اعظم اورآرمی چیف ایک پیج پر ہیں یا نہیں ہیں، میرے جیسوں کو تو وہ صفحہ ہی نظر نہیں آتا تھا جس پر دونوں کو تلاش کیا جا سکتا۔ کسی کو یوں لگتا کہ ملک میں راحیل ہی راحیل ہیں وزیر اعظم کہیں ہیں ہی نہیں، تین سال کی ٹرم پوری ہونے سے دس ماہ قبل میڈیا نے غیر ضروری بحث چھیڑ دی کہ کیا جنرل راحیل کو توسیع دی جائے گی۔ افسوس کہ جنرل راحیل، میڈیا کے مسخروں کی اس کج بحثی کو برداشت نہ کر سکے اور انہیں بولنا پڑا کہ ناں بھئی ناں، میرا ارادہ ہرگز توسیع لینے کا نہیں مگر جب تک ان کے جانشین کا اعلان ہو نہیں گیا، تب تک جنرل راحیل پر بوچھاڑ جاری رہی۔
مگر یار لوگ نچلے بیٹھنے والے کہاں تھے، ایک اخبار نے تو جنرل راحیل کی ریٹائرمنٹ سے ایک ہفتہ پہلے پیش گوئی کہ جیسے ہی وہ چارج چھوڑیں گے، اس کے بعد پہلی پرواز سے عمرہ کی ادائیگی کیلئے چلے جائیں گے۔ پیشین گوئی تو یہ تھی مگر اب راحیل صاحب سعودیہ کو سدھارے تو اخبار نے دعویٰ کر دیا کہ یہ پیشین گوئی تو ہم بہت پہلے کر چکے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ اس پیشین گوئی کا اصل مطلب کیا تھا، یہ کہ جنرل راحیل کو جلا وطن کر دیا جائے گا یا وہ خودساختہ جلاوطنی اختیار کر لیں گے۔
کچھ حلقے تو ادھار کھاتے بیٹھے ہیں جنہوں نے شب وستم کا سلسہ متواتر جاری رکھا ہوا ہے۔ سوال یہ اٹھایا جارہا ہے کہ جنرل راحیل دو سال کی پابندی کو ملحوظ رکھے بغیر نئی ملازمت پر کیسے چلے گئے، دوسرا سوال یہ ہے کہ جنرل راحیل ایک (متنازع) اسلامی دفاعی اتحاد کے سربراہ کیوں بنے، اس طرح تو پاکستان کی غیر جانبداری کی پالیسی کی نفی ہو گی۔ اس سوال کے پس منظر میں مفروضہ یہ ہے کہ اسلامی فوجی اتحاد دراصل ایران اور عراق کے خلاف ہے، پاکستان کے اندر یہ بحثا بحثی اب عالمی سطح کا موضوع بھی بن گئی ہے، دنیا نے یہ پھبتی کسی ہے کہ جنرل راحیل اسلامی نیٹو کے سربراہ بن گئے ہیں۔ ظاہر ہے دنیا کو اچھی طرح علم ہے کہ غیر اسلامی نیٹو، اب تک کیا تیر چلا سکی ہے، افغانستان ہو یا عراق یا شام، ناکامیوں کے لاشے ہیں جو جابجا تعفن پھیلا رہے ہیں۔
بات اب چیئرمین سینیٹ تک پہنچ گئی ہے جنہوں نے حکومت سے وضاحت مانگ لی ہے کہ جنرل راحیل کو کس نے جانے کی اجازت دی۔ یہ وضاحت دینا حکومت کا کام ہے، دیکھیے کیا کہا جاتا ہے اور جو کہا جاتا ہے، اس پر چیئرمین سینیٹ مطمئن ہوتے ہیں یا نہیں۔
اسلامی نیٹو والی پھبتی میرے دل کو لگی ہے اور بھلی لگی ہے، کسی کے دل پہ تو تیر لگا ہے کہ اس نے یہ پھبتی کسی اور اپنے بغض کا کھل کر اظہار بھی کیا۔ جب تک غیر اسلامی نیٹو تھی تو کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہوا، ہم میں سے بھی کسی نے نہیں پوچھا کہ یہ نیٹو شام میں بمباری کیوں کر رہی ہے اور اپنی دشمن داعش کی مدد کیوں کر رہی ہے۔ اس نیٹو کو بشارالااسد اور شام کے عوام سے کیا عناد ہے کہ وحشیانہ قتل و غارت بند ہونے میں ہی نہیں آتی اور پھر اس نیٹو کا کیا کام تھا کہ یہ پاکستان کے سر پہ آکر بیٹھ گئی اور افغانستان پہ قابض ہو گئی، نیٹو کے کنٹینروں نے ہماری سڑکیں ادھیڑ ڈالیں اور ہمیں راہداری تک نہیں دی، نیٹو کا جب دل چاہا تو انہوں نے پاکستان کا سلالہ بنا دیا۔ ترکی کو پاکستان میں چہیتا خیال کیا جاتا ہے، اس کی فوج پاکستان کے خلاف افغانستان میں موجود ہے اور یہی ترک فوج شام کے پنگے میں الجھی ہوئی ہے۔ یہ نیٹو فوج تھی جس نے لیبیا کے سربراہ قذافی کو میزائل کا نشانہ بنا کر شہید کیا۔ نیٹو کے اس گھنائونے کردار پر کسی کو لب کشائی کی توفیق نہیں ہوئی مگر جنرل راحیل اسلامی دفاعی اتحاد میں چلے گئے تو انہیں اسلامی نیٹو میں کیڑے تلاش کرنے کا موقع مل گیا۔
سعودی عرب ایک ساورن ملک ہے، وہ پاکستان کی رائے عامہ کا غلام نہیں کہ اس سے پوچھ پوچھ کر قدم اٹھائے۔ سعودی عرب پاکستان کی مالی امداد سے نہیں چلتا کہ ہمیں اس پر انگلی اٹھانے کا جواز مل سکے، ہم اس کا کھاتے بھی ہیں اور اس کے خلاف بڑبڑاتے بھی ہیں۔ ظاہر ہے کہ سعودی عرب کا کوئی اثر و رسوخ ہے جس کی وجہ سے چودہ ملکوں کا اتحاد آج اتنتالیس ملکوں کے اتحاد میں تبدیل ہو چکا ہے، انڈونیشیا جیسا دور دراز کا ملک بھی اس میں شمولیت کا اعلان کر چکا اور تو اور ایران عراق جنگ میں غیر جانبدرا رہنے والا عرب ملک اومان بھی اس اتحاد کا حصہ بن گیا، ہم جنرل راحیل کو واپس بلا سکتے ہیں تو بلا لیں لیکن کیا اس اتحاد کو توڑنے کی سکت ہم میں ہے، باکل نہیں ہے۔ اگر ہم نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ مودی کے اس ایجنڈے کو پروان چڑھانا ہے کہ ہمیں دنیا میں تنہا کر دیا جائے تو پاکستان کو بڑے شوق سے اس اتحاد سے نکال لیا جائے۔
میں یہ سوال بار بار اٹھا چکا ہوں کی چودوہ سو برسوں تک پاکستان نے اسلامی سلطنت کو وسیع نہیں کیا، جن کو ہم بدو کہتے ہیں، انہی نے قیصر و کسری کی اینٹ سے اینٹ بجائی تھی، انہیں نے صلاح الدین ایوبی اور عقبہ بن نافع کو جنم دیا۔ وہی اسپین سے انڈونیشیا تک اسلام کا پھریرا لہراتے رہے اور یہ غزنوی، غوری، ابدالی، ایبک، بابر، محمد بن قاسم بھی پاکستانی نہیں تھے، جب پاکستان نہیں تھا تو بھی اسلامی دنیا موجود تھی اور اسی اسلامی دنیا نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا، آج اس ایٹم بم کے ہوتے ہوئے ہم ایک مودی سے خوفزدہ ہیں اور اس کے ساتھ دوستی اور پیار کی پینگ جھولنے کے بہانے تلاش کر رہے ہیں۔
اور یاد رکھئے کہ جنرل راحیل نہ پہلا پاکستانی، نہ آخری جو بیرون ملک جا کر ریال کمانے لگا ہے، ہمارے لاکھوں پاکستانی سعودی ریال کما رہے ہیں اور پاکستان کو چلا رہے ہیں، ان میں ڈالر کمانے والے بھی ہیں پائونڈ کمانے والے بھی ہیں اور یورو اور درہم کمانے والے بھی، ہم ان تارکین وطن پر فخر کرتے ہیں جنہوں نے ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر کو لبا لب بھر دیا ہے، راحیل شریف کا نام بگاڑ کر ریال شریف رکھ دیا گیا ہے، کوئی اسے راحیل صلاح الدین ایوبی شریف کہتا ہے تو یہ ہمارے اندر کا گند ہے کہ ہمارا ذہنی گٹر ابل ابل پڑا ہے۔
پاکستان میں جگت بازی ایک پیشہ تھا، اس پیشے پر ڈاکہ پڑ گیا ہے اور جس دل چاہتا ہے بھانڈ پنا شروع کر دیتا ہے۔ پاکستانیوں کو نئے نئے مسخرے مبارک ہوں۔ یہ نئے نئے غیر پیشہ ور مسخرے جگتوں کے فائر داغ سکتے ہیں، سو داغے چلے جا رہے ہیں۔