تحریر : سید انور محمود
جنرل راحیل شریف دوٹوک فیصلے کرنے میں دیرنہیں لگاتے! آپریشن ضرب عضب کا فیصلہ ہو یا پھر کراچی آپریشن پر عملدرآمد، جنرل کا ہر فیصلہ دو ٹوک ہوتا ہے۔ جنرل راحیل شریف نے ایک تازہ اور دو ٹوک فیصلہ کراچی کے امن کےلیے کیاہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا کہنا ہے کہ “کراچی کو دہشت گردوں سے پاک کرنے، پرامن رکھنے اور خوف سےپاک معمولات زندگی کیلئےکسی بھی حدتک جائیں گے”۔ آرمی چیف نے حکم دیا ہے کہ کراچی میں دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو تباہ کرتے ہوئے شہرسے باہران کے ٹھکانوں اوررابطوں کو ختم کیا جائے۔ شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق کور ہیڈ کوارٹر کراچی میں سربراہ پاک فوج جنرل راحیل شریف کی زیر صدارت امن و امان سے متعلق اجلاس ہوآجس میں ڈی جی آئی ایس آئی، کورکمانڈر کراچی، ڈی جی ایم آئی، ڈی جی رینجرز سندھ اوردیگر اعلی حکام نے شرکت کی؟ پانچ گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہنے والے فوجی حکام کے اس اجلاس میں امن و امان کی صورتحال اور کراچی آپریشن کا جائزہ لیا گیا۔ اس اجلاس کی اہم بات یہ تھی کہ اس اجلاس میں آپریشن کے کسی بھی سویلین فریق کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔
پورئے پاکستان میں صرف آپریشن ضرب عضب کیا جارہا ہےجو دہشت گردوں کے خلاف ہےجبکہ کراچی میں آپریشن ضرب عضب کے ساتھ ساتھ کراچی آپریشن بھی کیا جارہا ہے۔ کراچی میں ایک طرف تو دہشت گرد ہیں تو دوسری طرف آپکو وہ جرائم پیشہ عناصرنظر آینگے جو اسٹریٹ کرا ئم، ٹارگیٹ کلنگ، بھتہ خوری، بنک ڈکیتی ، کا ر چوری اور دوسرئے جرائم میں ملوث ہیں، ان تمام جرائم پیشہ عناصرکو ختم کرنے کےلیے رینجرز کو کراچی آپریشن کے نام سے ایک ٹارگیڈڈ آپریشن دیا گیا ہے۔ رینجرز کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق2015ء میں 2410 آپریشن کیے گئے ان آپریشزکےدوران 69 رینجرز مقابلے ہوئے، ان مقابلوں میں 152 انتہائی خطرناک دہشت گردمارے گئے۔
جبکہ ان آپریشنز کے دوران 12 رینجرز اہلکاروں نےجام شہادت نوش کیا اور 20 زخمی ہوئے۔4074مشتبہ افرادکوحراست میں لیاگیا۔ 18 مغویوں کو بازیاب کرایا گیا۔ملزمان سے 2755 مختلف اقسام کے ہتھیار برآمدکیے جن میں پستول،راکٹ لانچر،آوان بم،آئی ڈی ڈیوائسز،دھماکاخیزمواد،دستی بمپروف جیکٹس اورمشین گنز،ایل ایم جیز،ایس ایم جیز،اسنائپررائفلز،جی تھری،شارٹ گنزاور بڑی تعداد میں مختلف اقسام کے اسلحہ برآمدکیاگیا۔ اس اسلحہ کی فہرست دیکھنے کے بعد ہم باآسانی کہہ سکتے ہیں کہ کراچی کے عوام بہت ہی خطرناک حالات میں رہ رہے ہیں لیکن اگر آج آپ کراچی کے ایک عام شہری سے بات کرینگے تو وہ یہ ہی کہے گا کہ حالات پہلے سے بہتر ہیں۔ جنرل راحیل شریف آپریشن ضرب عضب اور کراچی آپریشن کی خود نگرانی کررہے ہیں جبکہ کراچی میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو اس بات پر اعتراض ہے کہ رینجرز نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ کراچی آپریشن سے روشنیاں بحال ہو رہی ہیں امن وامان کی صورت حال بھی بہتر ہوگئی ہے ،عوام نے کئی سالوں بعد سکھ کا سانس لیا ہے،کراچی شہر معاشی حب ہے اور ملکی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ،کراچی شہر کو کسی صورت دہشت گردوں ،بھتہ خوروں اور جرائم پیشہ افراد کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے ان کے خاتمے تک ٹارگٹڈ آپریشن جاری رہے گا۔ دوسری طرف جب تک قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک سیاسی جماعت کو مخصوص انداز میں نشانہ بناتے ہیں تو وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ فخریہ انداز میں کراچی آپریشن کی کپتانی کا کریڈٹ لیتے ہیں لیکن جیسے ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کا رخ سندھ میں ہونے والی انتہائی سطح کی کرپشن اور سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال کی جانب موڑتے ہیں، سابق صدر آصف زرداری کے ایک دوست اور پیپلز پارٹی کے ایک سابق وزیر ڈاکٹر عاصم حسین کو کرپشن اور جرائم پیشہ افراد کے سہولت کار ہونے کے الزام میں گرفتار کرتے ہیں تو کراچی آپریشن سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کے درمیان متنازہ ہوجاتا ہے۔
جنوری 2016ء کے آخری دنوں میں وفاقی اور سندھ حکومت آمنے سامنے آگئے، وفاقی وزیر داخلہ داخلہ چوہدری نثار نے ایک پریس کانفرنس میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی حکومت سے مک مکا کی تصدیق کرنے کے علاوہ سندھ حکومت اور پوری پیپلز پارٹی پر یہ الزام لگایا کہ کچھ سیاسی عناصرکو تکلیف کوئی اور ہے لیکن غصہ نیشنل ایکشن پلان پرنکالا جارہاہے۔ اینٹ سے اینٹ کسی اور کی بجانا تھی ایسا تو نہ کر سکے لیکن مجھ پر تنقید شروع کر دی۔ وزیر داخلہ نے کہاکہ اندرون سندھ بھی آپریشن کی ضرورت ہے۔وفاقی وزیر داخلہ داخلہ چوہدری نثار کی پریس کانفرنس کے جواب میں پیپلزپارٹی کے رہنمائوں نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ان کی کارکردگی پر متعدد سوال اٹھائے ہیں، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے چوہدری نثار کانام لیے بغیر کہا مک مکا کی بات کرکے نوازشریف کو چیلنج کیا گیا، وزیر اعظم صاحب آپ کی آستینوں میں سانپ چھپے ہیں۔ صوبائی وزیر تعلیم نثار کھوڑو نے تو یہ کہتے ہوئے وزیر داخلہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا کہ ان کے سندھ نہ آنے کا مطلب ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے گھبرا رہے ہیں اور فرار چاہتے ہیں، اگر وہ نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر سکتے تو استعفیٰ دے دیں۔ ان بیانات کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے ایک اعلیٰ سطح کے مشاورتی اجلاس میں واضح کیا کہ وفاقی حکومت، سندھ حکومت کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تصادم نہیں چاہتی۔
پاکستان کے بڑئے بڑئےسیاسی تجزیہ نگار اس بات پر متفق تھے کہ اس مرتبہ بھی سندھ حکومت رینجرز کواختیارات نہیں دئے گی اور ایک مرتبہ پھر وفاق اور سندھ کی حکومتیں آمنے سامنے ہونگیں کیونکہ گذشتہ مرتبہ سندھ حکومت نے رینجرز کےاختیارات میں کمی کرتے ہوئے دو ماہ کےلیے مشروط توسیع کی تھی جسے وفاقی حکومت نے مسترد کرتے ہوئے رینجرز کودو ماہ کےلیے تمام اختیارات کے تحت کارروائی کرنے کا اختیار دیا تھا، جس کے تحت رینجرز کام کررہی تھی۔ وفاقی حکومت کی طرف سے رینجرز کے خصوصی اختیارات میں توسیع کی سمری ارسال کرنے سے متعلق خط لکھنے کے باوجود سندھ حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا جب کہ رینجرز کو دیے گئے خصوصی اختیارات کی مدت تین فروری کو ختم ہو جانی تھی ۔ اسلام آباد میں اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار نے وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا جس میں سندھ میں رینجرز کے اختیارات کے حوالے سے اُن سے بات کی ، اس موقع پرچوہدری نثارکا کہنا تھا کہ سندھ میں رینجرزکے انسداد دہشت گردی کے لیے خصوصی اختیارات کی مدت چندروزمیں ختم ہورہی ہے لہٰذا بہتر ہے کہ باہمی مشاورت سے نیا نوٹی فکیشن جاری کیا جائے تاکہ کراچی آپریشن کے حوالے سے ایک مثبت پیغام جائے۔
شاید یہ اسلام آباد میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس کا کمال تھا یا پھر 27 جنوری 2016ء کو کراچی میں اعلیٰ فوجی حکام کے اس اجلاس کے اثرات تھے کہ چوہدری نثار سے ٹیلیفون پر گفتگو میں وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ رینجرز اختیارات میں توسیع کی ریکوزیشن کل وفاقی حکومت کو بھیجیں گے اور اس ریکوزیشن کے الفاظ سے بھی بہتر پیغام جائےگا۔ اس درمیان میں وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے اپنے ایک پرانے ساتھی عزیر جان بلوچ کی گرفتاری پر کہا کہ ان کی گرفتاری سے پیپلز پارٹی میں کوئی اختلاف نہیں اور عزیر جان بلوچ سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، ساتھ ہی قائم علی شاہ نے یہ تصدیق بھی کی کہ عزیر جان بلوچ کی گرفتاری کے معاملے پر ڈی جی رینجرز نے انہیں اعتماد میں لیا۔ میڈیا کی اطلاع کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے رینجرز کے اختیارات کی خصوصی سمری پر دستخط کر دیے ۔ سندھ رینجرز کے اختیارات میں نوے روز کی توسیع کر دی گئی ہے، یہ ایک خوش آیند اطلاع ہے کہ کراچی آپریشن بلا روک ٹوک جاری رہے گا۔
قبل ازیں صورتحال قطعی واضح نہ تھی، بہر حال کراچی آپریشن اور رینجرز اختیارات کے حوالے پیدا شدہ تشویش کا باب بند ہوا۔ ورنہ وزارت داخلہ نے بوجوہ فیصلہ کیا تھا کہ اگر سندھ حکومت نے رینجرز اختیارات میں توسیع کی سمری ارسال نہ کی تو وہ وزیراعظم کی منظوری سے ازخود توسیع کا نوٹیفکیشن جاری کر دے گی۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا کراچی کو دہشت گردی سے پاک اور محفوظ بنانے کیلئے آخری حد تک جانے کا بھرپور عزم عین اس وقت سامنے آیا ہے جب سیاسی اور صحافتی حلقے 25جنوری کو کئے گئے انکے اپنی میعاد عہدہ میں توسیع نہ لینے کے اعلان پر تبصروں میں مصروف تھےاور مذکورہ بیان کے دو دن بعد بدھ27جنوری کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے آنیوالے بیان نے قوم کو واضح طور پر یہ پیغام دیا ہے کہ فوج کی ترجیحات برقرار رہیں گی۔
مستقبل کے منصوبے جاری رہیں گے اور شہر قائد میں رینجرز کی قیادت میں جاری آپریشن میں بظاہر کسی خلل کا امکان نہیں ہے۔سیاسی حلقوں میں یہ قیاس آرائیاں بھی ہورہی تھیں کہ وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی کے مابین الزام تراشی کا جوسلسلہ جاری ہے اسے اسٹبلشمنٹ کراچی آپریشن میں گرفتاریوں کے وسیع تر تناظر میں دیکھ رہی ہے، اور کوشش کی جائے گی کہ سیاسی کشیدگی سے جمہوری عمل اور مفاہمت کی فضا تباہ نہ ہو جب کہ رینجرز کی شفاف کارروائی پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ کراچی کے عوام جنرل راحیل شریف سے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ کراچی آپریشن کواپنے ریٹایرمنٹ سے قبل پایہ تکمیل تک پہنچاینگے اورکراچی میں موجودجرائم پیشہ عناصراور دہشت گردوں اور انکے سہولت کاروں کو ختم کردینگے۔
تحریر : سید انور محمود