تحریر : ڈاکٹر امتیاز علی اعوان
پاکستانی عوام مختلف گروہوں، فرقوں، رنگ و نسل، فرقہ واریت سے آزاد ہو جائے تو اس ملک کے سامنے کو کام نا ممکن نہیں جس کے لیے بحثیت ہمیں ایک پاکستانی قو م ہو جائیں تو کوئی بھی جنگ جیتی جا سکتی ہے اور ہار با لکل نا ممکن ہو سکتی ہے ہم اور ہماری پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف صف آراء ہیں کسی جنگ کے جیتنے کا سو فیصد امکان کبھی نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں خود کش بمباری یا بموں سے اڑا ڈالنے والی ظالم دہشت گردی 9/11 کے بعد ہی شروع ہوئی ہے جس روز 9/11 کاواقعہ ہوا اس روز اس عمارت میں ہزاروں نہیں بلکہ سبھی یہودی ملازم چھٹی پر کیوں تھے؟ ایسا ہو نا یکدم نہیں ہوا بلکہ یہودی پلان کا حصہ تھا۔ بعد میں امریکہ دیگر ممالک کی فوج کے ساتھ افغانستان پر چڑھ دوڑاہمارے ‘یس سر ‘جرنیل سے پاکستانی سرزمین سے حملے کرنے کی اجازت مانگی گئی۔ جوکہ منٹوں میں دے ڈالی گئی ہمارے ہی ہوائی اڈوں سے 78000 حملے افغانستان پر کیے گئے۔
بآلاخر فتح نہ ہو سکی اور اب امریکی افواج شکست تسلیم کرکے واپس سدھار رہی ہیں کہ امریکی عوام اپنے عزیزواقارب فوجیوں کی روزانہ لاشیں وصول کر کرکے اس محاذ سے مستقلاًتوبہ تائب ہو جانا چاہتے ہیں۔افغانستان کی سرزمین پر افغانی آج تک کوئی جنگ نہیں ہارے۔ اب کلسٹربموں اور زہریلی گیسوں سے ہزاروں حملے کرکے بھی نتیجہ امریکنوں کے حق میں نہ نکل سکا ہے۔ ہم نے ہی طالبان کی افغان حکومت کو تسلیم کیا تھااور ہم ہی نے امریکی افواج کو حملے کرنے کی اپنی سرزمین سے اجازت دے ڈالی۔ ہم دوست ہوتے ہوئے بھی افغانیوں کے دشمن بن کر رہ گئے کمانڈو جرنیل کی غلطی کو انہوں نے پوری پاکستانی قوم کی غلطی قرار دے رکھا ہے۔
اب امریکہ تو افغانی طالبان سے مذاکرات کرکے اپنے لیے خاموش واپسی چاہتا ہے اور ہم نہ ادھر کے رہے نہ اد ھر کے ہم تو افغانستان کے ہمسائے ہیں اب ہمسائیگی تو تبدیل بھی نہیں ہوسکتی افغان بارڈر کسی صورت سیل بھی نہیں کیا جاسکتا۔اورہمارے اور ادھر کے افغانی اور دوسرے خان کھلم کھلا آتے جاتے رہتے ہیں ۔ہم نے خوامخواہ دشمنی کیوں مول لے لی بارڈر کے ادھر اور ادھر آپس میں قریبی رشتہ داریاں ہیں ہمارے فاٹا کا علاقہ بالخصوص اور تقریباً سارے پختونخواہ کے رہائشی آپس کی قرابت داریوں میں بندھے ہوئے ہیں۔اب ہمارے لیے دو نوں کے ساتھ دشمنی بغیر کسی طرف داری کے غلط ہو گئی امریکہ کے افغانستان سے بھاگ جانے کے بعد ہمارا سٹیٹس کیا ہو گا۔
ہمارے ائیر پورٹس سے حملے خواہ وہ امریکنوں یا اس کے اتحادیوں ہی نے کیوں نہ کیے ہوں وہ ہمارے کھاتے میں لکھے جارہے ہیں ۔جیسے بھٹو نے خود تونواب محمد احمد خان قصوری کو گولی نہیں ماری تھی مگروہ بھی قتل کے مجرم ٹھہر کرپھانسی پاکر امر ہو گئے۔اب غور طلب بات تو یہ ہے کہ ہم اسی پالیسی پر چلتے رہیں گے یا امریکنوںکی مرتب کردہ پالیسیوں سے انحراف بھی کرسکتے ہیں۔ وہ تو جا ہی رہے ہیں اور کیا ہمارے ذمہ اب ان کی لڑائی لڑنا باقی رہ گیا ہے افغان طالبان کی طرح پاکستانی طالبان بھی پیدا ہو گئے۔
یہ سبھی ہمارے ہی بارڈر کے وہی رہائشی پختون ہیں جو کہ ہمارے ہی بارڈروں کی حفاظت کرتے اور جان نچھاور کرتے تھے اور ہمارے ہی کہنے پر روسی افواج سے بھی لڑگئے اوراس کی گرم پانیوں تک پہنچنے کی خواہش خاک میں مل گئی۔ اور یہی پختون جہاد کشمیر میں بھی حصہ ڈالتے رہے غور کرنا ہو گا کہ آخر ہم سے وہ کون سی بلنڈر ہوگئی کہ سبھی ہمارے ہی نہیں ہمارے بچوں تک کی جان کے دشمن بن گئے ہیں۔ کہیں ہماری خارجہ پالیسی میں کوئی ایسی غلطی تو نہیں ہوگئی کہ اب ہماری جان تک لینے تک کاوہ ظالم برملا اعلان کرتے اور فخر محسوس کرتے ہیں خود کش بمبار اور مسلح دہشت گرد ہمارے ملک کے اندر بھی مسلسل وارداتیں کر رہے ہیں۔
ہم آنکھیں بند کرکے تو جی نہیں سکتے ۔ہمیں ان کے خلاف خصوصی پلان سوچنا ہو گاکیا ہم سکولوں ،کا لجوں، یونیورسٹیوں ہسپتالوں بازاروں حتیٰ کہ جنازوں اور مساجدتک کی حفاظت صرف گن مینوں کو رکھ کر کرسکتے ہیں یقینا نہیںتو پھر آخر ہم کیا کریں۔ یہی سوچنے کے لیے تمام سیاستدانوں، ملک کے اعلیٰ دماغوں کو مل بیٹھنا ہو گا۔خواہ آپس میں کیسے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں۔ اورنج لائنیں بچھانے، عیش و عشرت کے سامان اکٹھے کرنے، مودی کو گھر میں بلانے اور پگڑیاں ساڑھیاں تبدیل کرنے سے یہ کام سینکڑوں گنا زیادہ ضروری ہے اس پر بھی غور ہو نا چاہیے کہ کیا یہ سب کچھ امریکی ڈرون حملوں کا نتیجہ ہے یا اسلام آباد کی لال مسجد میں کمانڈو جرنیل کی ہٹ دھرمی سے سینکڑوں حافظ قران بچیوں کو بھسم کرڈالنے اور ان کی ہڈیاں تک گٹروں میں بہا ڈالنے کا لازمی تقاضا ہے۔ اب مشرف تو چلا گیا کیا یہ سب کچھ اسی کی پالیسیوں کا نتیجہ تو نہیں؟ اور مجاھد جرنیل راحیل شریف کے ریٹائرمنٹ کے اعلان پر بغلیں بجانے والے سیاستدانوں کی کرپشنوں کا باب بند ہو جائے گا؟یاان کے گرد گھیرا اسی طرح مزید تنگ ہو تا جائے گا۔
کیا ہم جو مسلسل آئی ایم ایف ،ورلڈ بنک اور امریکنوں سے قرضے لیتے جارہے ہیں۔ایسے قرضوں کے بغیرگزارا ہو سکتا ہے کہ نہیں۔کیا ہم قیمتی معدنیات ہنگامی طور پر نکال کربین الاقوامی مارکیٹ میں بیچ کراپنے سارے قرضے یکمشت اتار کر اپنے پیروں پر کیوں کھڑے نہیں ہو سکتے۔کیا ہمیں ہمیشہ ہی ایسے فضول خرچ حکمران باقی رکھنا ہیں جو کہ سابقہ 65 سال سے لیے گئے قرضوں سے بھی زیادہ قرضے تقریباً تین سالوں میں ہی لے ڈالیں ۔بچہ بچہ قرضوں میں جکڑا جا چکا ہے کیا ہم غریب عوام ان کی تا بعداریوں سے جان جمہوری طریقے سے چھڑوانے کا عہد کرلیں گے۔
سوئی قوم تو جگائی جاسکتی ہے مگر جاگتی ہوئی کو کون جگاسکتا ہے ؟ کو ن مسیحا، مرد مجا ئد محمد بن قاسم، محمود غز نو ی ماں جنے گئی جو ظلم بے انصافی دہشت گردی غربت بیروزگاری سے ہمارے ملک کی جان چھڑائے گا۔ہماری اورپاک فوج کی ہزاروں قربانیوںا ور شہادتوں پرخدائے عزوجل ضرور ہماری جان دہشت گردی کے ناسور، جاگیرداروں و سود خور صنعتکاروں کی حکومتوں سے چھڑا ڈالیں گے۔ کرپٹ سیاستدانوں، ٹیکس چور حکمرانوں سے پاکستان اور اس کے عوام کی جان چھوڑوائی گئی۔
تحریر : ڈاکٹر امتیاز علی اعوان