تحریر : فرحین ریاض، کراچی
برس برس برسات کا بادل ندیا سی بن جائے گا دریا بھی اسے لوگ کہیں گے ساگر بھی کہلائے گا
جنم جنم کے ترسے من کی کھیتی پھر بھی ترسے گی کہنے کو یہ روپ کی برکھا برکھا پورب پچھیم برسے گی
ہاتھ میں گرم گرم کافی کا مگ ہو اور گھر کی کھڑکی سے باہر کا نظارا کیا جائے تو بارش کا موسم بہت دلفریب اور خوبصورت لگتا ہے فروری اور مارچ کے مہینے میں خوشگوار ماسم یعنی بہار کی خوشگوار ہوائیں ساتھ لاتا ہے اور ساتھ میں ساون کی دستک بھی دیتا جاتا ہے ساون قدرتی ضاناعی کا نادر نمونہ ہے موسم ِ برسات اس لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا مظاہرہ ہوتا ہے ٹھنڈی، ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہوں یا بالکل حبس ہوجاتا ہے پھر دیکھتے ہی دیکھتے بوندا باندی شروع ہوجاتی ہے ، بارش کا شور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر کبھی ہلکی کبھی تیز ہوتی بارش منظر کو خوبصورت بنا دیتی ہے۔
کوئی اس میںبھیگ کر لطف اندوز ہوتا ہے کوئی نظارا کر کے خوشی محسوس کرتا ہے ہر طرفبرستیبوندوں کا شور ، برستی بارش میں ایک خوشبو ہوتی ہے جھیلوں میں اور دریاؤں میں آسمان سے گرتا پانی ، مخملی گھانس کے قالین پر موتیوں کے ڈھیر ، پھولوں کی پنکھڑیوں پر لرزتی بوندیں ، ایسا موسم جو کراچی والے کم محسوس کرتے ہیں ہر طرف دھواں دار بارش ہو اور یہی بارش جب باعثِ رحمت سے باعثِ زحمت بن جائے تو پھرکتنا تکلیف دہ منظر ہوتا ہے۔
ملک آج کل کافی سیاسی ، سماجی ، اور صحت کے مسائل میں گھرِتا جارہا ہے ،بارش کی ذیادتی کے باعث لوگوں کو کافی مشکلات کا بہت سامنا ہے جگہ جگہ پانی اور پھسلن کی وجہ سے ٹریفک حادثات میں اضافی ہوجاتا ہے معمولاتِ زندگی بری طرح متاثر ہوجاتیہے موسم میں تبدیلی کی وجہ سے اب اکثر غیر معمولی صورتحال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ہمارا ملک ان بد قسمت ممالک میں شامل ہے جہاں جنگلات او ر درختوں کی تعداد خطرناک حد تک کم ہوچکی ہے بعض شہروں میں شدید بارش ااور بعض میں سخت خشک سالی ،جہاںبارش ہو رہی ہیں، کہا جارہا ہے کہ اگر درجہ حرارت اسی طرح بڑھتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب ایسے ہی موسم بڑی تباہی لائیں گے کیوںکہ زمینی درجہ حرارت سے نقصانات کا اندازہ لگانا مشکل ہے اسی وجہ سے موسم میں مستقل تبدیلیاں آتی جارہی ہیں اور اس سے کافی تباہیاں بھی ہورہی ہیں اس موسم میں شدید بارشوں کی وجہ سے جگہ جگہ پانی کھڑا ہوجاتا ہے ندی نالے اور دریا پانی سے بھر جاتے ہیں یہاں تک کے بارش کی زیادتی سے فصلوں کو نقصان ہوتا ہے پہلے یہی بارش لوگوں میں خوشی لیکر آتی تھی مگر اب یہ بارش رحمت کے ساتھ ساتھ زحمت میں تبدیل ہوجاتی ہیں شہر اور گاؤں کی بارشوں کے مناظر مختلف ہوتے ہیں قدیم گلی محلوں میں بارش کے پانی کے ساتھ ساتھ گٹر بھی ابلنے لگتے ہیں صاف شفاف آسمانی پانی کے ساتھ بد بو دار پانی شامل ہوجاتا ہیگلیوں کوچوں میں جگہ جگہ پانی جمع ہوتا ہے۔
بچے اس میں دوڑ رہے ہوتے ہیں ایکدوسرے پر چھینٹں اُڑا رہے ہوتے ہیں ، بارشوں کی زیادتی سے فصلیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں اور ان سے تعفن پھیلتا ہے وبائی امراض پیدا ہوتے ہیں ویسے تو ہمارے ملک میں عام حالات میں بھی آلودگی بہت ہے مگر برساتی پانی سی نباتات اور حیوانات کی بد بو ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا باعث بنتی ہے حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل نہیں کیا جائے تو وبائی امراض پھوٹ جاتے ہیں اس لیے بارشوں کے بعد گھر کے اندر کیچڑ کو اچھی طرح صاف کیا جائے مناسب ہوگا کے اس جگہ کو فنائل سے صاف کیا جائے باہر بھی پانی کو جمع نہیں رکھیں اس کو نکالنے کا انتظام کریں لوگ اس انتظار میں رہتے ہیں کی دھوپ نکلے گی توپانی سوکھ جائے گا ، مگر جب تک پانی سوکھے گا اس میں کتنے امراض پیدا ہوچکے ہوں گے دراصل جمع شدہ پانی مضر صحت جراثیم کی افزائش کا گڑھ بن جاتا ہے جو ہوا کے ساتھ اڑ کر ہمارت گھروں میں داخل ہوجاتے ہیں ملیریا کے مچھر بھی ان میں پروان چڑھتے ہیں اور سیلن اور گیلے پن کی وجہ سے کیڑ مکوڑے جنم لیتے ہیں ، اس گندگی میںشامل جراثیم مکھیوں کے ذریعے بھی ہم تک پہنچتے ہی ، گندگی کے بڑے ڈھیر جسکا اٹھانا مشکل ہو اس پر مٹی ڈال دیں ادویات کا چھڑکاؤ کریں ، گھر میں صفائی کا مناسب انتظام کریں اس موسم میں ٹھنڈ سے بچیں کیوں کہ نمی کی وجہ سے بخار اور درد کی کیفیت ہوجاتی ہے۔
اس موسم میں پانی کا بہت استعمال کریں پانی ہمیشہ ابال کر اچھی طرح چھان کر پئیں ، جسم کو اندرونی اور بیرونی حملہ آور بیماریوں سے بچانے کے لیے قدرت نے ایک دفاعی نظام تشکیل دیا ہے جو افراد جتنا صحتمند ہوگا اس کا دفاعی نظام اتنا ہی بہتر اور مضبوط ہوگا اس موسم میں وائرس اور بیکٹیریل انفیکشن (یعنی نزلہ زکام، کھانسی گلے کی خرابی ، بخار فلو کا سبب بنتے ہیں ، جراثیم سے لڑنے میں ہمارا دفاعی نظام کا کردار اس وقت موثر ثابت ہوتا ہے جب آپ سردی کے شروع میں احیتاطی تدابیراور متوازن خوراک استعمال کرتے آئیں ہوں تو آپ اس موسم کے لیے اپنے آپ کو تیار کرلیتے ہیں موڈ میں مسلسل آنے والی تبدیلیاں ڈپریشن کا باعث بن کر جسم کے دفاعی نظام کو سست کر دیتے ہیں ، اس موسم میں بازاری کھانوں کااستعمال نہیں کریں ، کیونکہ یہ حفظانِ صحت کے اصولوں مطابق تیار نہیں ہوتے ، باسی اشیاء ہر گز نہ کھائیں کھانا زود ہضم اور کم کھائیں کھانے، پینے کی اشیا ڈھانپ کر رکھیں ، موسمی امراض سے بچاؤ اور معدافتی نظام کو بہتر بنائیں پھل سبزیاں کو ہمیشہ اچھی طرح دھو کر کریں ، اس موسم میں الرجی کا مسئلہ بہت عام ہوجاتا ہے ایسی صورت میں تازہ پانی سے غسل کریں ہاتھوں کی اچھی طرح صفائی کریں، فلو ، کھانسی ، گلے کی خراش میں ہر سال بہت سے لوگ مبتلا ہوتے ہیں بظاہر یہ عام بیماری ہیں مگر ہر سال دنیا بھر میں ہزاروں لوگ اس سے متاثر ہوتے ہیں وائرل انفیکشن باعث اوقات بیکٹیریل انفیکشن میں تبدیل ہوکر دفاعی نظام متاثر کر دیتا ہے۔
ملک بھر میں غیر معمولی بارشوں سے ہونے والی تباہی اور جانی نقصانات قابلِ افسوس ہے مختلف شہروں میں پانی نے جو تباہی مچائی ہیں وہ متعلقہ ادارے کی نااہلی ظاہر کر رہا ہے گیر معمولی بارشوں نے شہریوں کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے ایسی آفات ہر ملک میں آتی ہیں مگر اس کی تباہی سے بچاؤ کے اقدامات کرنا ہی حکومت کا کام ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ قدرتی آفات پر قابو پانا انسانوں کے بس کی بات نہیں لیکن ان آفات سے بچاؤ کے لیے حفاظتی اقدامات کرنا انسان کے بس میں ہے ، بارشوں ، ندی نالوں اور دریاؤں میں طغیانی جیسی آفات سے عوام محفوظ رکھنے کے لیے انتظامی اور حکومتی خواہش نظر نہیں آتی یہ بات واضح ہے کہ ہم ان سب سے نمٹنے لے لیئے ہم تیار نہیں ، ایسے موسم میں تو گاؤں میںقیامت برپا ہوجاتی ہے وہاں ہر طرف حکومت کی نا اہلی اور بے بسی کا مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے کوئی ہنگامی صورتحال کو کنٹرول کرنا اب ان کے بس کی بات نہیں ہے ، جب بھی کبھی قدرتی آفات آتی ہیں تو وسیع پیمانے پر تباہی ہوتی ہے غریب عوام اپنے عزیزوں کو سسکتے ہوئے دیکھتی رہتی ہے ان سے حمدردی کے طور پر مالی امداد یکر مطمئن ہوجاتے ہیں۔
کچھ دنوں بعد ان سے کئے وعسے بھول جاتے ہیں ، ان مسائل سے بچنے کے لیے حکومتی دوروں ، خالی خولی تسلیوں سے صورتحال بدلنے والی نہیں بلکہ مستقل بنیادوں پر قبل از وقت کام کرنا ہوگا تاکہ ان آفات سے نمٹا جا سکے ان نالوں مستقل بنیادوں پر صفائی کروائی جائے تاکہ بارشوں میں یہ نالے اور جگہہیں بھپرنے سے بچ جائیں کم سے کم گاؤں شہروں میں ان برساتی نالوں کے سیلاب سے نجات مل جائے گی سوال یہ ہے کہ بارشوں سے بچاؤ کے لیے حکومت نے کائی اقدامات نہیں کیئے او ر نہ ہی کوئی محفوظ مقامات بننانے کی زحمت گوارا کی ہے اب متاثرہ لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر آخر جائیں تو کہاں جائیں وفاقی حکومت نے 2005 کے ہولناک زلزلے کے بعد قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے جو ادارے قائم کیے تھے اس نے اس موسم میں کیا کردار ادا کیا ؟؟؟؟؟ حکومت کو قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ممکن حد تک اقدامات کرنا چاہیئں ، ایک جامع منصوبہ بننانا چاہیے ، جس میں ہر برس قدرتی آفات سے متاثر علاقوں کے بچاؤ کے لیے انتظام کیا جائے ایادہ متاثر علاقوں کے لوگوں کے انخلا کا ان کے رہنے کھانے پینے کا انتظام ہونا چاہیئے ، لوگوں کو بر وقت آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مدد بھی کی جائے ان کو سہولت دینا حکومت کا فرض ہے کیونکہ ان کے ٹیکس سے ہی ادارے ترقی پاتے ہیں۔
تحریر : فرحین ریاض، کراچی