تحریر: ممتاز حیدر
حالیہ بارشوں سے ملک کے شمالی علاقہ جات، جنوبی پنجاب اور سندھ میں سیلابی کیفیت ہے۔ بارشیں رکنے کا نام نہیں لے رہیں اور پانی میں مسلسل اضافہ ہونے کی وجہ سے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت ہے تو اسے عوام سے کوئی غرض نہیں۔ پاک فوج کے نوجوان ہمیشہ کی طرح اب بھی سیلاب متاثرین کی مدد میں لگے ہوئے ہیں۔ شاید حکومت سمجھ رہی ہے کہ یہ کام صرف فوج کا ہے لیکن یہ غلط فہمی ہے۔
فوج تو سرحدوں کے دفاع کے لئے ہے۔حکومت کو اپنا کام کرنا چاہئے تھا لیکن اسے فرصت ہی نہیں۔فضائی دورے اور ان میں سیلاب متاثرین کے لئے خوش کن اعلانات توپچھلے برس بھی کئے گئے تھے اگر ان اعلانا ت پر پورا عمل کیا جاتا تو شاید اس دفعہ سیلاب سے نقصان کم ہوتا۔ چترال میں موسلا دھار بارشوں کے بعد سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔سکردو کی سب ڈویڑن کھرمنگ کے بالائی علاقے میں غضب ناک پانی کا ریلا راستے میں آنے والے پہاڑوں کے پتھر توڑتا، درخت باغات اور جنگلات کو روندتا ہوا ہر چیز کو تہس نہس کر گیا۔ طورغون میں سیلابی ریلے کی قہرناک لہروں نے آٹھ گھر تباہ کر دئیے۔ ٹھاٹھیں مارتے چنگھاڑتے پانی کے ریلے نے رابطہ پل، ایری گیشن چینل اور علاقے کی واحد رابطہ سڑک تباہ کر دی۔ گاؤں کا رابطہ منقطع ہونے سے رہائشی محصور ہو کر رہ گئے۔ سکردو میں خرمنگ پڑی کے مقام پر لینڈ سلائیڈنگ سے خرمنگ روڈ بلاک ہو گیا جس سے 60 سے زائد بالائی دیہات کا رابطہ کٹ کر رہ گیا۔ مقامی دریاؤں اور ندی نالوں میں طغیانی سے مزید خدشات سر اٹھانے لگے ہیں۔
سیلاب عیون کے مقام پر مسجد سمیت درجنوں گھر اور دکانیں بہا لے گیا۔ گزشتہ 14 روز سے وادی کا راستہ بند ہے اور بجلی کی سپلائی بھی منقطع ہے۔ گرم چشمہ، مستوج اور بمبوریت روڈز ابھی تک بحال نہیں ہو سکیں۔ شدید بارش کے باعث امدادی کارروائیاں شدید متاثر ہو رہی ہیں جس سے متاثرین کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ مظفر گڑھ، دادو، کشمور اور سکھر کے سیکڑوں دیہات میں سیلابی پانی داخل ہو گیا۔سیکڑوں ایکڑ اراضی بھی پانی کی لپیٹ میں ہے۔ پانی میں مسلسل اضافے سے گدو بیراج کے بھونگ بچاؤ بند، ایل ایم بند اور آر ایم بند پر پانی کا دباؤ بڑھ گیا ہے۔ زیر آب دیہات میں بھی پانی کی سطح بلند ہو گئی ہے اور منہ زور پانی مزید کئی دیہات میں داخل ہو گیا ہے۔
لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اپنا مال مویشی اور اشیائے ضروریہ لے کر محفوظ مقامات منتقل ہو رہے ہیں۔ہزاروں متاثرین کھلے آسمان تلے پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ مورو پل پر پانی کی سطح بلند ہونے سے دادو کا کچے کا علاقہ پانی کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔ دو سو سے زائد دیہات کا زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ گھوٹکی، کشمور اور سکھر کے اکثر علاقوں میں چاروں اطراف پانی کی پانی نظر آ رہا ہے۔ راجن پور میں کوٹ مٹھن کے مقام پر سیلابی ریلا اور کوہ سلیمان پر بارش سے ندی نالوں میں آنے والی طغیانی نے درجنوں دیہات میں پانی داخل ہو چکا ہے۔ راجن پور بیٹ سونترا پر بے قابو لہروں نے سکھانی بند توڑ دیا۔ نالہ سوری میں طغیانی سے روجھان کے مقام پر ریلوے ٹریک بھی ڈوب گیا۔ بستی لاکھا، جاگیر گبول، بستی سرکی اور عاقل پور میں سیکڑوں افراد پانی گھروں میں داخل ہونے سے بے گھر ہو کر رہ گئے ہیں۔آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج کی سیلاب متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔ پاک فوج کے جوانوں نے لیہ اور گردونواح میں پندرہ ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔ تین ہزار دو سو پچاس مریضوں کا آرمی میڈیکل کیمپ میں علاج بھی کیا گیا۔
صادق آباد، رحیم یار خان سے باون ہزار افراد اور ایک لاکھ ایک ہزار مویشیوں کو بھی محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔ چاچڑاں شریف میڈیکل کیمپ میں پاک فوج کی جانب سے تینتالیس مریضوں کا علاج کیا گیا۔ پاک فوج نے متاثرین کو خوراک بھی پہنچائی۔ پاک فوج کے بعد سیلاب متاثرہ علاقوں میں سب سے زیادہ کام فلاح انسانیت فائونڈیشن کے رضاکار کر رہے ہیں۔پیلی جیکٹیں پہنے ہونے یہ جوان ہر سیلابی علاقے میں نظر آئیں گے جو پاک فوج کے شانہ بشانہ ریلیف و ریسکیو کا کام کر رہے ہیں۔چترال کے پہاڑی علاقوں میں دشوار گزار راستوں میں دور کے علاقہ جات میں کندھوں پر دوائیاں اور خوراک لے کر یہ لوگ پہنچے تو مقامی لوگوں کی جان میں جان آئی۔کئی ایسے مقامات ہیں جہاں صرف اور صرف فلاح انسانیت ہی متاثرین کی مدد کے لئے پہنچی ہے۔جنوبی پنجاب میں کشتیوں کے ذریعہ نہ صرف لوگوں بلکہ ان کے سامان اور مال مویشیوں کو بھی محفوظ مقامات پر منتقل کیا جار ہا ہے۔فلاح انسانیت فائونڈیشن کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سکردو، چترال،لیہ،ڈیرہ غازی خان،راجن پور،مظفر گڑھ،سکھر ،سندھ میں 79ریلیف و میڈیکل کیمپ قائم کئے گئے ہیں۔ساڑھے پانچ ہزارسے زائدافرادکوکشتیوں کے ذریعہ فلاح انسانیت فائونڈیشن کے رضاکاروں نے ریسکیو کیا۔متاثرہ علاقوںمیڈیکل ٹیموں نے15ہزار سے زائد مریضوں کا علاج معالجہ کیا ہے۔اٹھاون ہزارسے زائد افراد میں پکا پکایاکھاناتقسیم کیا گیا۔
ہزاروں خاندانوں میںایک ماہ کاخشک راشن تقسیم کیا گیا ہے ۔35 ایمبولینس گاڑیاں اور20موٹربوٹس مختلف علاقوںمیںریلیف آپریشن میںحصہ لے رہی ہیں۔چترال، سکردو اوردیگرعلاقوں میں 25ہزار8سو گیلن صاف پانی سیلاب متاثرین کو فراہم کیا گیا ہے۔چترال کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں تباہ ہونے والے مکانات کی تعمیر کاسلسلہ بھی جاری ہے۔سیلاب سے جاں بحق ہونے والے افرادکے لواحقین میں نقد امداد بھی تقسیم کی جارہی ہے۔جنوبی پنجاب کے سیلاب متاثرین کیلئے لاکھوں روپے مالیت کا مزید امدادی سامان پہنچ گیا ہے جس کی تقسیم کا سلسلہ جاری ہے۔
امدادی سامان میں13سوخاندانواں کیلئے خشک راشن، ادویات، خیمے، بستر، برتن ،منرل واٹر اوربچوںکے کھلونے شامل ہیں۔جنوبی پنجاب، سندھ، چترال میں تباہ کن بارشوں سے ہونیوالے نقصانات کے پیش نظر مزید میڈیکل و امدادی ٹیمیں روانہ کر دی گئیں ہیںجو متاثرین کو سیلابی پانی سے محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ ہر ممکن امداد مہیا کررہی ہیں۔حالیہ بھیجی جانے والی امدادی کھیپ کی تقسیم کے لئے فلاح انسانیت فائونڈیشن کے رضاکار متاثرہ علاقوں میںسیلاب زدگان کا سروے کر رہے ہیں۔تاکہ متاثرین تک شفاف طریقے سے امدادی ساما ن تقسیم کیا جا سکے۔سیلاب متاثرین کی امداد کے لئے پاک فوج اور فلاح انسانیت فائونڈیشن کے جوانوں کا جذبہ خدمت خلق قوم کے لئے ایک روشن مثال ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم بھی سیلاب متاثرین کی بھر پور مدد کرے تا کہ ان کی مشکلات کم ہوں۔فلاح انسانیت کے دفاتر میں سیلاب متاثرین کے لئے امداد پہنچائی جا سکتی ہے تو پاک فوج کے ریلیف کیمپوں میں بھی جمع کروائی جا سکتی ہے ۔یہاں پہنچنے والی امداد ضائع ہونے کی بجائے صحیح خرچ ہو گی اور سیلاب متاثرین کی مشکلات کا سارا تو نہ سہی کچھ نہ کچھ مشکلات ضرور کم ہوں گی۔
تحریر: ممتاز حیدر