تحریر:راجہ عزیراحمد
دعا کو ہاتھ اٹھتے ہیں’یقین ہے اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہوں گے۔سادہ اطوار’ایثار کیش’نیک نیت۔پروردگار ان کی نیکیاں قبول کرے’خطائوں سے درگزر فرمائے ۔ آدمی چلے جاتے ہیں’ آخر کودعا رہ جاتی ہے۔فرصت یک دو نفس اور قبر کی شب ہائے دراز۔۔۔۔ دو برس ہوتے ہیںکہ ٣٠ جنوری کی رات ایک فون کال قیامت بن کے ٹوٹی۔کال اٹھائی تو معلوم ہوا کہ چیف صاحب داغِ مفارقت دے گئے ہیں۔میں یقین اور بے یقینی کے گرداب میں غوطے کھانے لگا۔معلوم تھا شدید علیل ہیں پھر بھی دھچکا لگا اتنی جلدی کیوں؟۔۔۔میری نظر میں وہ ایک صحت مند انسان تھے۔ان کے انتقال کا سنا تو آنکھوں میں بادل سا آگیا۔میں عجیب سی کیفیت میںڈوبتا چلا گیا۔اتنی جلدی کیوںاور کیسے؟۔جلدی ان کے مزاج میں تو نہ تھی پھر بھی بھاگ کر چلے گئے۔
صبح چار بجے ان کا دیدار ہوا تویوں لگا کہ گہری نیند میں ہیں۔یقین نہ آیا کہ داعی اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں۔چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ اور نور سے بھرپور۔یوں لگا کہ ابھی بیدار ہوں گئے تو پوچھیں گئے کہ کیا ہوا کیوں رو رہے ہو؟۔مگر افسوس وہ دارِفانی کو کوچ کر چکے تھے۔ان کے چاہنے والوں کی بہت بڑی تعداد صبح سویرے ہی ان کے دیدار کے لئے ان کی رہائشگاہ پر امڈ آئی تھی۔تمام لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے اور ہر آنکھ پُرنم۔۔۔چیف صاحب سے لوگوں کا لگائو دیکھا تو بے اختیار ان کی یادوں نے گھیرے میں لے لیا۔
راجہ محمد لطیف خان نے ٨نومبر ١٩٥٨ء کو راجہ محمد جلال خان کے ہاں آ نکھ کھولی۔آپ کے خاندان کا سیاسی وسماجی حوالے سے ہردورمیں نمایاں کردار رہا۔آپ نے بھی تعلیم حاصل کرنے کے بعد باضابطہ عملی سیاست میں حصہ لیا اور کامیاب ٹھرے۔١٩٨٩ء میں آپ نے سول سروس کا رخ کیا اور میونسپل کارپوریشن میرپور میں چیف آفیسر تعینات ہوئے۔اس کے بعد آپ آزادکشمیر بھر میں اپنے نام کے بجائے”چیف صاحب”کے لقب سے شہرت پائی۔آپ اپنے لقب کی طرح زندگی کے ہر شعبے میںچیف ثابت ہوئے۔آپ نے اپنی ملازمت کے دوران تقریباً پورے آزادکشمیر میںاپنے فرائض سرانجام دیئے اور اپنی صلاحیتوں کا بھرپور لوہا منوایا۔٢٠٠٧ء میں آپ کو اپنی صلاحیتوں کی بدولت آزادکشمیر کے سب سے بڑے بلدیاتی ادارے میونسپل کارپوریشن میرپور کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا۔آپ نے مختصر مدت میںمیرپور شہر کا حلیہ درست کر کے میرپور کو آزادکشمیر کے باقی شہروں سے ممتاز کر دیا۔وہ بلاشبہ میرپور کی تاریخ کے بہترین ایڈمنسٹریٹر تھے۔اسی دور میں آپ کومحکمہ لوکل گورنمنٹ آزادکشمیر کا سیکرٹری تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیامگر آپ نے خندہ پیشانی سے معذرت کر لی۔آپ انتہائی ملنسار شخصیت تھے’اپنی زیرِنگرانی کام کرنے کرنے والوں کا بطورِ خاص خیال رکھتے’غریبوں کی ضروریات کا بھی خیال رکھتے’مدارس میں پڑھنے والے بچوں کی کفالت کرتے(جس کا پتا آپ کے گھر والوں کو بھی آپ کی وفات کے بعد چلا)۔
چیف صاحب ایک منفرد شخصیت کے حامل انسان تھے۔ان کی کرشماتی شخصیت لوگوں کو ان کی طرف متوجہ کر دیتی تھی۔مطالعہ میں ہمیشہ سے باذوق تھے۔طنزومزاح کے دلداہ مگر کسی کی پگڑی نہ اُچھلنے پائے۔ایک مخصوص مسکراہٹ ہمیشہ ان کے چہرے پر نمودار رہتی’کھبی ان کے چہرے پر اداسی نہ پائی گئی۔چھوٹے بڑے تمام لوگ ان کی محفل میں مخظوظ ہوتے۔چیف صاحب مجھ سے عمر میںکافی بڑے تھے مگر انھوں نے کھبی اس فرق کو دیوار نہ بننے دیا۔میں نے ان کی محافل میں محسوس کیاکہ ہر معاملے میں ان کی مدلل رائے ہے اور وہ اپنی رائے پر قائم رہتے تھے۔بلکہ زیادہ ترقلیل سی بحث میں تمام شرکاء بھی ان کی رائے تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔چیف صاحب کو دلیل سے بات کرنے کا نایاب فن آتا تھا۔چیف صاحب اپنے خیالات کو ہر جگہ بے باکی سے بیان کرتے تھے۔ان کی شگفتگی قائم درقائم رہی۔میں نے کھبی انھیں رنجیدگی کے صحرا میں آبلہ پانہیں دیکھا۔سارے دکھ درد اپنے اندر سمو لینے پر مہارت حاصل کر چکے تھے۔ہم ایسے لوگوں کو وہ بے تکلفی سے وہ نکتے بیان کر دیتے جودراصل اپنی قیمت میں سونے سے مزین زریں اقوال ہوتے تھے۔
چیف صاحب کا جنازہ ٣٠جنوری٢٠١٤ء کو دن تین بجے تھا۔یہ ایک ناقابلِ فراموش جنازہ تھا۔یہ ایک ایسے شخص کا جنازہ تھاجس نے اپنی وفات کے بعد بھی اپنے جنازے کے ذریعے مجھ ایسے کے علم میں اضافہ کیا۔اس جنازے میں شرکت سے مجھے اصلی حکومت کی جھلک دیکھنے کا موقع ملا۔مجھے پتا چلاکہ اصل حکمران تو وہ ہوتے ہیں جو لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرتے ہیں۔یہ ایک ایسے ہی بے مثال انسان کا جنازہ تھاجو لوگوں کے دلوں کا حکمران تھا۔اس جنازے میں انسانوں کا ایک سمندر تھاجو ٹھاٹھیں مارنے کی بجائے دھاڑیں مار کر رو رہا تھااور غم اور افسردگی کی تصویر بنا ہوا تھا۔انسانوں کا سمندر دیکھ کر مجھے احساس ہوا حکمرانوں کی طاقت کے دعوے فریب کے سوا کچھ نہیں۔
چیف صاحب نے صرف ٥٥سال ہمارے درمیان گزار کر وہاں کا رخ کیا جہاں ہم سب کو چلے جانا ہے۔انھیں دل کا شدید عارضہ لاحق تھالیکن کھبی اپنی تکلیف کا ڈھنڈورا نہ پیٹا۔پھر ایک دن چیف صاحب اسی عارضے کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار گئے۔زندگی بھر چیف صاحب نے اپنے تمام فیصلے اسی طرح صادر کئے’چپ چاپ مگرپتھر پر لکیر۔موت کو بھی ایسی ہی آمادگی کے ساتھ قبول کیا۔وہ ان سعید روحوں میں سے ایک تھے جنہیںادراک ہو جاتا ہے۔وفات سے ایک ہفتہ پہلے کہنے لگے:”اب بس ہو گئی ہے’اسٹیشن قریب آپہنچا ہے’یہ سامان سمیٹنے کا وقت ہے۔”خوش گفتارتھے لیکن اب تاکید کیا کرتے کسی کا ذکرمنفی انداز میں نہ ہو۔کچھ اورباتوں سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی۔ان کی ناگہانی وفات پر غالباًکوٹلی سے آئے ان کے ایک مداح نے مرثیہ پڑھا تو رونے والوں کو اور بھی رلایا۔ چیف صاحب کو ہمارا ساتھ چھوڑے دوسال بیت چکے ۔رواں جنوری ہی میں ان کی دوسری برسی عقیدت واحترام سے منائی جائیگی’اور وہ ایک بار پھر پوری شدت سے ہمارے درمیان ہوں گئے۔وہ ہم سے جدا ہو کر بھی جدا کہاں ہوئے ہیں۔۔۔دور ہو کر بھی دورکہاں ہوئے ہیں۔۔!!! خداتعالیٰ چیف صاحب کی مغفرت کرے۔۔۔ دعا کو ہاتھ اٹھتے ہیں ‘یقین ہے اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہوں گئے۔ سادہ اطوار’ایثار کیش’نیک نیت ۔پروردگاران کی نیکیاںقبول کرے’خطائوں سے درگزرفرمائے۔ آدمی چلے جاتے ہیں ‘آخر کو دعا رہ جاتی ہے۔فرصت یک دو نفس اور قبر کی شب ہائے دراز۔۔۔۔
تحریر:راجہ عزیراحمد