اسلام آباد(ایس ایم حسنین) ترکی کے گزشتہ دونوں آئین ایسے ہیں، جن میں ملکی سیاست پر ‘فوج کی نگرانی‘ کے انمٹ اثرات موجود ہیں۔ ترکی کو ایک نئے اور ’سویلین‘ آئین کی ضرورت ہے۔ یہ بیان ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے ملکی کابینہ کے ایک اجلاس کے بعد ٹیلی وژن سے نشر کیے گئے اپنے ایک خطاب میں دیا۔ غیر ملکی نشریاتی ادارے کے مطابق صدر ایردوآن نے پیر یکم فروری کی رات اپنے اس خطاب میں کہا کہ ان میں سے ایک آئین 1961ء میں نافذ کیا گیا تھا اور دوسرا 1982ء میں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ ملکی آئین کے طور پر ان دونوں دستوری دستاویزات کی منظوری فوج کی طرف سے بغاوت اور اقتدار پر قبضے کے بعد دی گئی تھی۔ ترک صدر نے اپنے موقف کی زیادہ وضاحت تو نہیں کی تاہم اتنا کہا کہ ترکی کو اپنے ہاں ایک نیا ‘سویلین‘ آئین تیار اور منظور کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس موضوع پر اپنی جماعت کے قوم پسند اتحادیوں کے ساتھ بات چیت کریں گے۔رجب طیب ایردوآن نے کہا، ”شاید وقت آ گیا ہے کہ ترکی کو اب ایک نئے ریاستی آئین کی تیاری پر بحث کرنا چاہیے۔ یہ کام عوام کے سامنے اور ان کے تمام نمائندوں کی شرکت کے ساتھ بہت شفاف طریقے سے کیا جانا چاہیے۔ پھر جو دستاویز تیار ہو، اسے منظوری کے لیے ترک عوام کے سامنے رکھا جانا چاہیے۔ اپنے اسی خطاب میں صدر ایردوآن نے یہ بھی کہا کہ ترکی اپنے ہاں ایسی جدید ترین سائنسی تنصیبات کی تکمیل پر کام جاری رکھے ہوئے ہے، جن کی مدد سے جلد ہی انقرہ اپنے اور غیر ملکی مصنوعی سیارے خلا میں بھیج سکے گا۔رجب طیب ایردوآن نے کہا، ”وہ دن اب بالکل دور نہیں کہ جب ہم ایسی سائنسی تکنیکی تنصیبات کے حامل ہوں گے، جہاں سے ہم اپنے اور اپنے دوست ممالک کے سیٹلائٹ خلا میں بھیجا کریں گے۔‘‘
‘‘پارلیمانی جمہوری نظام سے صدارتی جمہوری نظام تک کا سفر
ترک جمہوریہ میں ماضی میں پارلیمانی جمہوری نظام رائج تھا، لیکن 2018ء میں پارلیمانی جمہوری نظام کی جگہ امریکا کی طرز پر صدارتی جمہوری نظام متعارف کرا دیا گیا تھا۔ اس نظام کے تحت ملکی صدر کو اب بےتحاشا اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ملکی سیاسی نظام میں یہ تبدیلی ایک ایسے عوامی ریفرنڈم کے بعد ممکن ہوئی تھی، جس میں ترک عوام نے 1982ء میں نافذ کردہ آئین کی کئی شقوں میں بنیادی ترامیم کی منظوری دے دی تھی۔ترکی کا خلائی پروگرام