کراچی……..بھارتی ریاست راجستھان کی دو خواتین نے قاضی ہونے کا دعویٰ کردیاتاہم قاضی اعلیٰ نے ان کے اس دعویٰ کو یہ کہہ کر غیر اسلامی قرار دے دیا کہ اسلام میں عورت قاضی نہیں ہو سکتی۔
بھارتی اخبارانڈین ایکسپریس کے مطابق راجستھان میں دو خواتین نے اسلامی امور اور فرائض کی انجام دہی کیلئے اپنے آپ کو بطور قاضی پیش کردیا ہے جس پر علما نے ان کی شدید مخالفت کی ہے ۔ ان کے بطور قاضی تقررکئے جانے کے دعویٰ کو تمام مکاتب فکر کے علماء نے مسترد کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ خواتین مخصو ص مذ ہبی فرائض انجام نہیں دے سکتیں جنہیں مردوں کی طرف سے ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔قاضی ہونے کا دعویٰ کرنے والی دونوں خواتین جے پور کی رہائشی ہیں جن میں سے ایک کا نام افروز بیگم اور دوسری جہاں آرا ہیں۔دونوں نے حال ہی میں ممبئی کے ایک دارالعلوم نسواں سے دو سالہ تربیت مکمل کی ہے اور اب وہ دونوں بغیر کسی تقرری کے اپنے تئیں ہی راجستھان ریاست کی پہلی خواتین قاضی بن بیٹھی ہیں ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ نکاح ،طلاق اور مہر کے مسائل کا فیصلہ کریں گی۔مذکورہ خواتین کا موقف ہے کہ وہ خواتین کو انصاف دلانے کیلئے قاضی بنیں جس کیلئے انہوں نے ممبئی سے دو سالہ کورس کیا تاہم راجستھان کے قاضی اعلیٰ خالد عثمانی کا کہنا ہے کہ قرآن کے مطابق ایک عورت مرد کی حاکم نہیں ہو سکتی لہذا ایک عورت قاضی بھی کبھی نہیں ہو سکتی۔ اسلامی تاریخ میں خواتین کے قاضی ہونےکا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اگر اسلام میں کسی خاتون کو قاضی ہونے کا حقدار قرار دیا جاتا تو اس کیلئےحضرت فاطمہ بنت محمدﷺ رول ماڈ ل ہیں لیکن وہ بھی قاضی نہیں تھیں۔بھارت میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مولانا خالد رشید فرنگی کا کہنا ہے کہ نکاح پڑھانے کے دوران کوئی خاتون قاضی مرد کی معاون تو ہو سکتی ہے لیکن بذات خود وہ قاضی نہیں بن سکتی ،کسی خاتون کا قاضی بنناغیر اسلامی ا مر ہے۔تاہم جہاں آرا کا موقف ہے کہ اس سے پہلے بھی خواتین قاضی رہ چکی ہیں ، پٹنہ سے ایک خاتون قاضی شبنم نے 700 سے زائد نکاح پڑھائے۔افروز بیگم کا کہنا تھا کہ لوگ ان کی مخالفت کر رہے ہیں لیکن قرآن میں کہیں بھی موجود نہیں کہ عورت ایک قاضی نہیں ہو سکتی ، یہ سچ ہے، خواتین آئمہ (امام مسجد) نہیں ہو سکتیں لیکن وہ بحیثیت قاضی بن سکتی ہیں اور خواتین کی مدد کر سکتیں ہیں۔