لاہور (ویب ڈیسک) پیغام بہت واضح ہے، آپ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر مسلسل نظر رکھی جا رہی ہے۔ قانون اور قانونی فیصلوں کے بارے میں جو رائے ریاستی نظریہ سے متصادم ہے، اس پر نہ صرف اعتراض کیا جاتا ہے بلکہ انھیں سنسر کرنے کی بھی کوششیں کی جاتی ہیں، نامور خاتون صحافی منزہ انوار بی بی سی کے لیے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔اور یہی اصل مسئلہ ہے۔‘ یہ کہنا تھا تجزیہ کار، وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ریما عمر کا جن کو حال ہی میں پاکستانی قوانین کی ’خلاف ورزی‘ پر ٹوئٹر کی جانب سے ایک ای میل موصول ہوئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ٹوئٹر کو سرکاری طور آپ کے اکاؤنٹ کے بارے میں مطلع کیا گیا ہے کہ آپ کی کچھ ٹویٹس پاکستانی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ آخر ریما نے ایسی کون سی ٹویٹس کر دیں جنھیں پاکستانی قوانین کی خلاف ورزی سمجھا گیا؟ یہ تینوں ٹویٹس فوجی عدالتوں کے بارے میں ہیں۔ مثال کے طور ایک ٹویٹ میں وہ کہتی ہیں: ’فوجی عدالتوں کی کارروائی غیر شفاف ہوتی ہیں اور عام لوگ ان کی جانچ پڑتال نہیں کر سکتے۔ ان کے فیصلے سراسر اعترافِ جرم پر مبنی ہوتے ہیں اور پشاور ہائی کورٹ نے انھیں ’بناوٹی‘ قرار دے رکھا ہے۔ ملزم کسی قسم کا دفاع نہیں کر سکتے اور نہ ہی انھیں آزادنہ قانونی نمائندگی حاصل ہوتی ہے۔ تو کیا آپ پھر بھی فوجی عدالتوں پر اعتماد کر سکتے ہیں؟ ریما عمر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ان ٹویٹس میں کوئی خلافِ قانون بات نہیں ہے، اس لیے کوئی وجہ نہیں ہے کہ میں ڈر کے مارے انھیں ہٹا دوں۔‘ ان کا مزید کہنا تھا: ’جو چیز زیادہ پریشان کن ہے وہ یہ کہ قانون اور قانونی فیصلوں کے بارے میں جو رائے ریاستی نظریہ سے متصادم ہے، اس پر نہ صرف اعتراض کیا جاتا ہے بلکہ انھیں سنسر کرنے کی بھی کوششیں کی جاتی ہیں، اور یہی اصل مسئلہ ہے۔‘ صرف ریما عمر ہی کو ٹوئٹر کی جانب سے ایسی ای میل موصول نہیں ہوئی، بلکہ ماہرِ تعلیم اور حقوقِ نسواں کی کارکن ندا کرمانی کو بھی اسی قسم کی ای میل موصول ہوئی ہے، جس میں تقریباً انھی الفاظ میں کہا گیا ہے کہ ان کی کچھ ٹویٹس پاکستانی قوانین کے منافی ہیں جن میں ندا کی منظور پشتین کے ساتھ تصویر والی ایک ٹویٹ بھی شامل ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ندا کرمانی نے بتایا کہ یقیناً یہ تھوڑا پریشان کن ہے مگر مجھے اس ای میل پر کوئی تعجب نہیں ہوا، کیوں کہ ٹوئٹر پر کافی عرصے سے ان لوگوں کو ایسی ای میلز موصول ہو رہی تھیں جو اہم مسائل پر بات کرتے ہیں یا ریاست سے مختلف خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔اس سوال پر کہ کیا انھوں نے کسی سے اس بارے میں وضاحت مانگی ہے، ان کا کہنا تھا: ’نہیں، مجھے یہ زیادہ محفوظ لگا کہ میں اس بارے میں ٹویٹ کروں اور فیس بک پر شیئر کر کے لوگوں کو بتاؤں کیونکہ اگر یہ بات ہو رہی ہے تو باقی لوگوں کو بھی پتہ ہونا چاہیے کہ اس طرح سے سنسرشپ کی کوشش ہو رہی ہے۔ مجھے نہیں معلوم میں کس سے رابطہ کروں گی اور کون حکومت میں اس حوالے سے بات کرنے کے لیے مناسب ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ آفیشل شکایت حکومت کی طرف سے ٹوئٹر کو بھیجی گئی ہے، تو پھر مجھے حکومت کے پاس جانے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔‘ ان کا مزید کہنا تھا :’یقیناً ریاست آن لائن سپیسز کے بڑھنے سے خوف زدہ ہے، اس لیے وہ لوگوں کو لگام ڈالنا چاہ رہے ہیں جو میرے جیسے ماہرِتعلیم کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ ریاست کو اس چیز کا احساس ہونا چاہیے کہ مخالف رائے اور بحث و مباحثہ ترقی کے لیے کتنا ضروری ہیں۔‘ یاد رہے کہ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ کا سیکشن 37، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو اجازت دیتا ہے کہ وہ اسلامی اقدار، قومی تشخص، ملکی سلامتی اور دفاع کے خلاف مواد کو فوری طور پر ہٹا دے۔اس ضمن میں وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ انھوں نے یا ان کی وزارت نے اس طرح کی کوئی وارننگ ٹوئٹر کو نہیں بھیجی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’فوجی عدالتیں ہونی چاہییں یا نہیں، یہ ایک علمی بحث ہے اور اس پر کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔‘ فواد چوہدری نے انھی الفاظ پر مبنی ایک ٹویٹ بھی کی۔ جس پر ریما عمر نے ان سے تین سوال کیے ہیں کہ کیا ٹوئٹر اپنی طرف سے یہ ای میلز بھیج رہا ہے؟ کیا کوئی بہروپیا خود کو حکومت کا نمائندہ ظاہر کر کے یہ شکایات بھیج رہا ہے؟ یا یہ شکایات ’سرکاری‘ طور پر کی جا رہی ہیں مگر حکومت کو بتائے بغیر؟ اس کا فی الحال کوئی جواب نہیں آیا، البتہ اسی معاملے پر پی ٹی اے کے ترجمان نے بی بی سی کو کچھ یوں وضاحت دی: ’فی الحال ایسی کوئی شکایت میرے نوٹس میں نہیں آئی، ہو سکتا ہے پی ٹی اے کو کسی صارف کی طرف سے شکایت موصول ہوئی ہو اور اس پر تحقیقات کی جا رہی ہوں، یا عمل درآمد ہوا ہو۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ جن ٹوئٹر صارفین کو ای میلز آئی ہیں ان کو چاہیے وہ خود اپنے مواد کا جائزہ لے لیں، اگر کچھ قوانین کی خلاف ورزی ہوئی ہے یا اداروں کے خلاف کوئی بات کی گئ ہے، تو وہ مواد ہٹا دیں۔