تحریر : میر افسر امان
سترہ رمضان کو تاریخ کا وہ دن ہے جس دن اللہ نے اس دنیا میں حق و باطل کا فیصلہ کر دیا تھا۔ اسی پر مغرب کے ایک بڑے محقق نے لکھا ہے” بدر سے پہلے اسلام محض ایک مذہب اور ریاست تھا ،مگر بدر کے بعد وہ مذہب ِ ریاست بلکہ خود ریاست بن گیا”مکہ کی تیرہ سالہ زندگی میں قریش نے رسولۖ اللہ کو بہت ستایا تھا۔ ایک دفعہ خود رسولۖاللہ نے کہا تھا ،دین کے معاملے میں جتنا مجھے ستایا گیا کسی بھی اللہ کے پیغمبر کو نہیں ستا یا گیا۔ مکہ کی تیرہ سالہ ظلم و زیادتی سے بھری زندگی کے بعد اللہ تعالیٰ نے رسولۖ اللہ کو مدینے کی ہجرت کی اجازت دی تھی۔قریش نے مدینہ میں بھی رسولۖ اللہ کو آرام سے دین کی اشاعت کی اجازت نہیں تھی۔
رسولۖ اللہ مدینہ ہجرت کر گئے تاکہ وہاں جا کر اللہ کے پیغام کو عام کریں تو قریش مکہ نے مدینہ کے عبداللہ بن سبا ،رئیس منافقین کے ساتھ ساز باز کی اور اس کے بعد قریش نے ارادہ کر لیا تھا کہ فوجی طاقت سے مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو فنا کر دیا جائے اور ایسا ناگہانی حملہ کیا جائے جو مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے ہی مٹا دے ۔ حملے کے لیے سرداران قریش اپنے ساتھ 1000 مردان جنگی جن میں 600 سو زرہ پوش تھے ،جن میں 100 سواروں کا رسالہ بھی بھی شامل تھا پوری شان وشوکت کے ساتھ شراب و شباب کی محفلیں سجائے مسلمانوں کا خاتمہ کرنے نکلے تھے ۔اُ ن کے مقابلے میں مسلمانوں کے تعداد83 مہاجرین 61 قبیلہ اوس اور152 قبیلہ خزرج 79متعلقین ہر دو قبائل تھے(اصحابِ بدر مولانا محمد سلیمان منصور پوری)۔ مسلمانوں کے پاس صرف دو تین گھوڑے تھے باقی آدمیوں کے لیے 70 اونٹ تھے سامان حرب بل لکل ناکافی تھا ۔17 رمضان کیحق وباطل کی پہلی جنگ میں مسلمانوں کے مد مقابل کسی کاباپ،کسی کا بیٹا،کسی کا چچا،کسی کا ماموں،کسی کا بھائی ،اس کی اپنی تلوار کی زد میں آرہا تھا اپنے ہاتھوں اپنے جگر کے ٹکڑے کاٹنے پڑرہے تھے ۔ اُس زمانے کے جنگ اصول کے مطابق عام جنگ سے پہلے مشرکوں کی طرف سے ان کے چند نامی گرامی بہادر جنگ جو تلواروں اور نیزوں سے لیس، آہنی زرہ پہنے اور سروںپر آہنی خود پہنے میدان جنگ میں سامنے آئے۔توحید والوں کی طرف سے رسول ۖ اللہ کے حکم پر ٣١٣صحابہ میںسے کچھ انصاری صحابہ ان کے مقابلے کے لیے ان کے سامنے آئے۔
باطل پرستوں کی طرف للکار آئی ہمارے ساتھ مقابلے کے لیے ہمارے جوڑ کے بندے لائو۔ ہم اُن سے لڑنا چاہتے ہیں۔ رسولۖ اللہ کے طرف سے حکم ہوا علی میدان میں اُترو، ہ حمزہ سامنے آئو۔ جنگ بدر کے موقع پر صحابہ نے اپنے رشتہ داروں سے جنگ کی اور انہیں قتل کیا۔حضرت معصب بن عمیر نے اپنے بھائی عبید بن عمیرکو قتل کیا۔حضر ت ابو عبیدہ بن جراح نے اپنے باپ عبداللہ بن جراح کو قتل کیا۔حضرت عمر نے اپنے ماموںعاص بن ہشام کو قتل کیا۔حضرت علی نے شیبہ کو قتل کیا۔حضرت حمزہ نے ہندہ کے باپ عتبہ کو قتل کیا۔حضرت عبید بن حارث نے ولید بن عُتبہ کو قتل کیا۔ ابو جہل کوحضرت معوذ اور معاذ دونوں نے قتل کیا۔ حق اور دین کی حفاظت کے لیے اپنے قریبی رشتہ داروں کو قتل کیا۔ یہ حق اور باطل کی جنگ تھی۔اس جنگ میں قریش مکہ کے70 آدمی مارے گئے اور70قید ہوئے قریش کے بڑے بڑے سردار اس جنگ میں مارے گئے ا ایک طرف حق تھا اور دوسری طرف باطل۔ باطل والے باطلوں جیسے کرتوت دیکھاتے ہوئے شراب و کباب کی محفلیں سجاتے ،شان شوکت سے ایک ہزار نامی گرامی جنگ جوئوں کو ساتھ لے کر آئے تھے اور دوسری طرف حق والے اپنے اللہ کی ہدایت کے مطابق انکساری سے اللہ کے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی کمانڈ کے میں بدر کے مقام پر خیمہ زن ہوئے تھے۔
ایک طرف کے شرک کرنے والے لوگ اپنے باطل نظریات پر قائم اور ایک اللہ کو چھوڑ کر سیکڑوں خودساختہ خدائوں کے بھروسے پر لات و ملاة عزیٰ اور دوسرے بتوں کے لاتعداد جھڈے لیے میدان میں اُترے تھے۔ تو دوسری طرف ایک اللہ کی عبادت کرنے والے،ایک رہبر اور ایک سبز ہلالی پرچم لیے ہوئے ان کے سامنے اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہو ئے للکار رہے تھے۔ فوجیں آمنے سامنے تھیں۔ گھمسان کی جنگ ہوئی۔اللہ نے مسلمانوں کو فتح دی ۔اللہ کا مسلمانوں وعدہ تھا کہ وہ ہی فتح مند رہیں گے بشریکہ وہ مومن ہوں۔ ایک اللہ پر بھروسہ کریں شرک سے بچیں۔ رسولۖ اللہ کے حکم کی پیروی کریں کیونکہ کہ رسولۖاللہ کے حکم کی پیروی اللہ کے حکم کی پیروی ہے۔ رسول ۖاللہ، اللہ کے پیغمبرۖہیں جو اللہ کی ہدایات اللہ کے بندوں تک پہچانے کے پابند ہیں۔ وہ اللہ کے آخری پیغمبرۖ ہیں۔اللہ نے اُن کے ذریعے انسانیت کو سچی اور صحیح ہدایات دیں۔ جو رہتی دنیا تک قائم ودائم رہنی ہے۔
اس کے بعد اللہ کی ہدایا ت قرآن شریف کی شکل میں محفوظ ہے۔اللہ نے کافروں کو چلیج کیا تھا کہ قرآن جیسی ایک سورت بنا لائو جو یقیناً تم نہیں بنا کر لا سکتے۔آج مسلمانوں کے پاس اللہ کا قرآن اُسی شکل میں موجود ہے۔ اللہ ۖ کے رسول نے قرآن پر عمل کر دیکھایا جو رسولۖ اللہ کے قوم فعل اور عمل کی صورت میں حدیث رسولۖ اللہ کی شکل میں مسلمانوں کے پاس موجود ہے۔ آج سعودی عرب کی طرف سے خانہ کعبہ سے چوبیس گھنٹے ہرروز قرآن کی تلاوت ہو رہی ہے اور مسجد نبوی سے رسولۖ اللہ کی حدیث بیان کی جارہی ہے۔
مسلمانوں کو اس سے فیض حاصل کرنا چاہیے۔ ہمارے گھروں میں بھی قرآن موجود ہے ۔اب بھی بدر جیسا سماں پیدا ہوسکتا ہے اگر مسلمان مومن بن جائیں۔اللہ قرآن میں کہتا کہ غم نہ کرو پریشان نہ ہو تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔ صاحبو! یہ اللہ کا فیصلہ ہمارے پاس موجود ہے پھرکیوں مسلمانوں کو دنیا میںذلیل ہونا پڑ رہا ہے۔
کیا شاعر اسلام علامہ اقبال نے اس پر ہی کہا تھا” یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو۔ یہ تو بتلائو تم میں سے کوئی مسلمان بھی ہو” ہمیں چاہیے کہ ہم بہتر مسلمان بننے کی کوشش کریں۔ مسلمانوں اللہ کاوعدہ سچا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قرآن کی ہدایات پر عمل کریں۔رسولۖ اللہ کی سنت پر چلیں۔اسنشاء اللہ مسلمان ہی کامیاب رہیں گے۔
تحریر : میر افسر امان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان