تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا
کامیاب حکومت کی پہلی ترجیات میں جو چیز شامل ہوتیں ہیں۔ ان میں بنیادی انسانی روز مرہ کی اشیا کی بلا روک ٹوک ا اور سستے نرخروں ، میں ہر جگہ فراہمی ہوتی ہیں، نیز تعلیم اور صحت کو اولین فوقیت حاسل ہوتی ہے۔ پاکستان کے معر ض وجود میں آنے کے ساتھ ساتھ ہماری بدنصیبی بھی شروع ہوگئی تھی جو تا حال جاری و ساری ہے۔ مرحوم و مغفور بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اور شیہد ملت لیاقت علی خان جیسے محب وطن اور دانشور بھی ہم سے روٹھ کر اللہ رب العزت کے حضور پیش ہوگئے ۔ اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ ان کو جنت نصیب کرے ، قائد اعظم محمد علی جناح اور آپ کے تمام ساتھیوں کو جنہوں نعمت خداوندی اسلامی جموریہ پاکستان جیسا ملک ہمیں دیا۔
حکومت کوئی بھی ہو بحثیت انسان اچھائی اور برائی کا پہلونظر اداز نہیں کیا جا سکتا ،پنجاب حکومت نے ہر سال سستے رمضان کا انعقاد کر کے محب وطن حکومت ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ کڑوڑوں روپیہ خرچ ہو رہا ہے۔ نیت کا حال صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ مگر جس چیز کی اُمید کی جارہی تھی وہ کسی بھی رمضان بازار میں پوری نہیں ہوئی ۔صرف جمع و تفریق کے علاوہ کچھ نہیں۔ ہر با شعور انسان جانتا ہے۔ کہ جو کوالٹی عام بازار کی ہے وہ رمضان بازار میں نظر نہیں آتی۔ رمضان میں جو آٹا سست داموں رخت ہو تا ہے۔ اس کا معیار حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق نہیں کیونکہ جو گندم گوداموںمیں خراب ہو رہی ہوتی ہے مل ملکان ذاتی اثروسوخ استعمال کر کے حکومتی منشاء اور آشیرباد کے تحت کوڈیوں کے بہاؤ خرید کر منافع پلس منافع کے تحت رمضان بازار میں سستے داموں پہنچا کر غریبوں کی غربت کا مزاق اُڑایا جاتا ہے ۔ اور ہر سال حکومت نام و نمود کی نمائیش کے لئے ایسے ڈرامے رچائے اور بسائے جاتے ہیں۔ یہ سستے رمضان بازار ہوتے ہیں جو ہوتے تو سستے ہیں مگر وزرا کے دورے انتہائی مہنگے ہوتے ہیں۔صرف مہنگے ہی نہیں بلکہ پوری انتظامیہ کو دفتروں سے نکل کر سستے رمضان بازار کی دیکھ بحال اور معیار و مقدار کے لئے اپنے فراہض سر انجام دیتے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ رمضان بازار بھی دیگر بازاروں کی طرح عوام کو ریلیف دیتا ہے جیسا کہ جمہ بازار،منگل بازار ، اتوار بازار اور لنڈا بازار وغیرہ میں عوام کو روز مرہ کی اشیاء سستے داموں مل جاتی ہے مگر رمضان بازار کی طرح ہر نتھو پتھو سمیت حکومتی عوامی سیاسی انتظامیہ کے افسران کے دوروں پر دورے ہو رہے ہیں۔ جنکا فوٹو سیشن کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ہے۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ رمضان بازار میں معیار اور مقدار کا معقول انتظام ہیں ، حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ۔ پھر بھی غریب عوام کو رمضان بازار کا وہ فائدہ نہیں جو خادم اعلیٰ جناب میاں محمد شہباز شریف کا خواب اور تمنا تھی۔ سوال پیدا ہوتا ہے ؟ کیا غریب عوام کو رمضان میں روز مرہ کے کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ کوئی کا نہیں پوری انتظامیپہ رمضان بازار میں مصروف کر دی گئی ہے۔ ڈی سی او، ڈی پی او ، اسسٹنٹ کمیشنر۔ تحصیلدار گرداور پٹواری اور پولیس سب کے سب یا تو رمضان بازار میں ڈیوٹی دے رہے ہیں یا رمضان بازار کے دورے کر رہے ہیں
انتظامیہ کو رمضان بازار میں فراہض دینے کی وجہ سے ٹرانسپورٹروں نے اپنی دنیا اپنی سلطنت اور اپنی حکومت بنائی ہوتی ہے ۔ نہ کرائی نامہ اور نہ ہی کرائے کا کوئی شڈول وجہ رمضان بازار،
کسی رمضان بازار میں صفائی ستھرائی نام کی کوئی چیز نظر نہیں آئے گی وجہ پوری انتظامیہ رمضان بازار کی سجاوٹ اور دوروں کو حتمی شکل دینے میں مصروف نظر آتی ہے ایک منٹ کے لئے فرض کر تے ہیں ۔۔ انتظایہ اپنے اپنے فراہض اادا کر رہی ہے اور عام بازار سے سستی اشیا رمضان بازار میں فرخت ہو رہی ہے ، پاکستان کی ستر فیصد آبادی دور دراز دیہاتوں میں آباد ہے۔ جنکا وقت مزدوری کر کے کٹتا ہے۔ اگر ایسا آدمی بازار آئے جو کم از کمم ایک سو سے دو سو روپیہ ہے ۔ کیا وہ غریب مزدور رمضان بازار سے کتنے پیسے کی خریداری کر لے گا؟؟
یہ بھی سچ ہے اگر وہ مقامی دکاندار سے التماس کرے تو وہ بھی کوئی ڈسکاؤنٹ کر دے اور کرایہ وغیرہ نکال کر رمضان بازار کے حساب سے اسکو مقامی طور پر وہ اشیاء مل جائیں جہاں تک سیاسی قد کاٹھ بڑھانے کی بات ہے تو رمضان بازار اور رمضان بازار کے دورے اور پھر دوروں کی کوریج کاغزی کاروائی تک ٹھیک ہے مگر حقیقت میں عوام اس کو ایک مزاق ہی سمجتھے ہیں۔ سفید پوش آدمی جس کے چار پاج بچے ہیں اس کو پہلے رمضان سے ہی بچوں کی عید پر کپڑے اور جوتوں کی فکر کھائے جارہی ہوتی ہے یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی متوسط طبقہ میں اگر کسی بچی کی پیدائیش ہو جائے تو روز پیدائیش سے لیکر بچی کی رخصتی تک ہر روز کچھ نہ کچھ جمع کرتے رہتے ہیں اور پھر شادی کے دن جہیز کی صورت میں اپنی لخت جگر کو فارغ کرتے ہیں۔
اعلٰ احباب سے گزارش ہے افطاری کے دستر خوان دیہاتوں اور شہروں میں حکومتی اور سماجی صخیصات کی سرپرسی میں لگائے جاتے ہیں۔ لوگ زکواة اور صدقہ بھی رمضان میں دیتے ہیں۔سفید پوش طبقہ اپنے لخت جگروں کی خواہشات ، آرزو، اور خوشیاں پوری کرنے کی خاطر سحری و افطاری میں کنجوسی برتتے ہیں تا کہ بچوں کی عید پرچیخ و پکار یا رونا دھونا نہ ہو اور بچے خوشی سے عید گزار سکیں۔۔۔ کیونکہ بچے تو بچے ہیں
اگر آپ سفید پوش طبقے کے لئے کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو رمضان بازار میں کڑوڑوں روپیہ خرچ کرنے کی بجائے پٹوول ڈیزل اور ٹیکس میں چھوٹ دیکر تاجروں کو پابند کر دیں کہ یہود و نصریٰ کی طرح ہر چیز کے ریٹ میں رمضان میںکمی کردیں اس طرح عوام کو حقیقی ریلیف بھی ملے گا اور حکومتی خزانے پر بوجھ بھی نہیں ہوگا۔ اور خاص بات یہود و نصریٰ کی طرح جیسے وہ اپنی عوام کو مہزبی تہواروں پر خصوصی ریلیف دیتے ہیں آپ بھی اس سلسلہ میں بسماللہ کریں اللہ برکت دے گا۔ کسی بھی عسائی ملک کو دیکھ لو غریب ہے یا امیر وہ اپنی کرسمس (عید) پر ہر چیز آدھی قیمت پر فروخت کرتے ہیں حتیٰ کہ موبائل کمپنیاں لوڈ کرنے پر ڈبل واپس کرتی ہیں۔
کیا یہ ریلیف حکومت پاکستان اپنے شہریوں کو عید پر تحفیہ کی صورت دے گئی؟غریبوں اور سفید پوش طبقے کے لوگوں کو رمضان میں کوئی پرشانی نہیں ہوتی کیونکہ اسلامی جموریہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور یہاں کے لوگ ثواب کی خاطر رمضان میں صدقہ خیرات اور زکواة کے علاوہ بھی مالی مدد کرتے ہیں، اور ویسے بھی رمضان برکتوں والہ ماہ ہوتا ہے، اس لئے ماہ رمضان میں جگہ جگہ روزے رکھوانے اور روزے کھلوانے کے غیر معمولی انتظامات ہوتے ہیں، حکومت رمضان بازار کی بجائے عید بازاروں کا انعقاد کروائے تا کہ غریبوں یتیموں بیوؤں اور سفید پوشوں کے بچے بچیاں بھی عید کی خوشیاں منا سکیں، علمائے کرام سے بھی گزارش ہیں کہ فطرانہ کی ادائیگی نماز عید سے پہلے کی بجائے آخری عشرہ شروع ہوتے ہی ادا کرنے کی تلقین کیا کریں تا کہ غریبوں کا بھرم بھی رہ جائے اور خوشی کے دن کسی گھر میں صفِ ماتم نہ بچھے۔
تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا