تحریر : محمد آصف اقبال
عام طور پر ناکارہ اور کام چور لوگوں کی پہچان ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں تو ادا نہیں کرتے لیکن چند دیگر خوشنودی کے کام انجام دے کر متعلقہ ذمہ دار کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس کے لیے کبھی وہ جائز اور کبھی ناجائزطریقہ اختیار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔وہیں حقیقت یہ بھی ہے کہ عام طور پر ذمہ دار یا افسر اپنے متعلقہ افراد سے باخبر ہوتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ فلاں شخص جو اپنی ذمہ داری ادا نہ کرتے ہوئے دیگر حربے استعمال کر رہا ہے وہ دراصل اْس کی نظر میں قابل اعتماد بننے اور عرف عام میں اپنی ساکھ برقرار رکھنے کی ایک ناکام کوشش ہے۔اس کے باوجود لوگ سمجھتے ہیں کہ افسر لاعلم ہے، ہماری کوششیں رنگ لائیں گی اور دوسروں پر ہم کو فوقیت حاصل ہو جائے گی۔کچھ یہی معاملہ مذاہب میں عبادات میں غلو کے تعلق سے بھی ہے۔چند لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ عبادات میں غلو کے دخول سے اپنے ان معبودانِ غیر حقیقی کے مخصوص بندوں میں شمار ہو جائیں گے جن میں عام لوگ نہیں ہیں۔
یہ معاملہ تو معبودانِ غیر حقیقی کا ہے لیکن وہ لوگ جو معبودِ حقیقی اور رب العا لمین کی عبادات کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں ،ان کو عبادات کا طریقہ، ان کی تعداد اور مقدار بھی متعین کرکے بتا دی گئی ہے۔اس کے باوجود وحدانیت کے قائل افراد کی بعض اوقات شدید خواہش ہوتی ہے کہ عبادت کے طریقہ اور تعداد میں کچھ اضافہ کر لیا جائے یا اگر اضافہ نہیں کر سکتے تو کچھ نئے رسم و رواج اورعقائد وافکار میں تبدیلی ہی لے آئیں تاکہ خواہشِ نفس کی تکمیل ہو جائے ساتھ ہی ہماری ساکھ بھی بحیثیت مسلمان برقرار رہے۔ممکن ہے کچھ ناسمجھ یا بھولے بھالے لوگ اس کے قائل ہوں لیکن معاملہ یہ ہے کہ یہ بھولے بھالے اور ناسمجھ لوگوں کا عمل نہیں بلکہ ان شاطر اور چالاک لوگوں کے حربے ہیں جو دین میں کجی پیدا کرنے کے درپے ہیں۔مقصد یہ ہے کہ امت کا شیرازہ بکھرجائے اوردینِ حنیف جن اوصاف و صفات سے مزین انسانوں کی تکمیل چاہتا ہے وہ نہ ہونے پائے۔
ایسے تمام مواقع پر یاد رکھنا چاہیے کہ دین میں کجی یا بے راہ روی کے نتیجہ میں نہ صرف امت منتشر المزاجی کا شکار ہوگی بلکہ رب غفور و رحیم کی نظر کرم سے بھی محروم ہو جائے گی۔معلوم ہوا کہ دین کے وہ کام جن کو عبادات کا درجہ دیا جاتا ہے ان میں کوئی نئی چیز پیدا کرنا، ان میں کمی یا زیادتی کرنا یا اس کی فکر اور عقیدے میں تبدیلی لانا،کارِ خیر نہیں بلکہ کارِ حرام ہے۔اسی لیے اللہ کے رسول فرماتے ہیں:”جس نے ہمارے دین میں کسی ایسی چیز کی ایجاد کی جو دین میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے” اور کہا کہ:”جب کوئی قوم (دین میں ) نئی بات نکالتی ہے (یعنی ایسی بدعت جو سنت کے مزاجم ہو) تو اس کے مثل ایک سنت اٹھالی جاتی ہے۔ لہٰذا سنت کو مضبوط پکڑنا نئی بات نکالنے (بدعت) سے بہتر ہے” (مسند احمد بن حنبل)۔اسی طرح ایک اور موقع پر اللہ کے رسول فرماتے ہیں:” بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین سیرت محمد کی سیرت ہے اور سارے کاموں میں بدترین کام نئے نئے طریق ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے “(صحیح مسلم)۔
اور یہ رمضان المبارک کا آخری جمعہ: آج امت مسلمہ دین وعبادت کے نام پر جن من گھڑت باتوںاور کاموں میں ملوث ہے ان میں ایک اہم مسئلہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو “جمعة الوداع”کہنا،سمجھنا اور برتنا بھی ہے۔ رمضان کے آخری جمعہ کو آج عرف عام میں جمعة الوداع کا نام دیا جاتا ہے، اس کے باوجود کہ یہ نام کتاب و سنت میں کہیں نہیں ملتا۔گرچہ یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ جس طرح ہجرت کے دسویں سال آپ کے آخری حج کو حجة الوداع کہا جاتا ہے اسی طرح نبی کریم کے آخری رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو “جمعة الوداع”قرار دیا جا سکتا ہے۔لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے حج صرف ایک مرتبہ ادا کیا اور وہی حج ،حجة الوداع بھی کہلایا لیکن رمضان کے روزے اور اس کے جمعہ ایک نہیں بلکہ بہت مرتبہ آپ کی عبادات کا حصہ رہے۔اس پس منظر میں یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے کہ رمضان کے آخری جمعہ کو جمعة الوداع کہا جائے۔دیکھا جائے تو خصوصاًہندوستان میں اور اس کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی رمضان کے آخری جمعہ میں خطبہ کے دوران خطباء ایسے اشعار پڑھتے اور تقاریر کرتے ہیں جن میں رمضان کے گزر جانے پر افسوس کیا جاتا ہے۔پھرہر ایک جملہ یا دو جملوں کے بعد کہتے ہیں “الوداع الوداع”یا کہتے ہیں”الفراق الفراق”یا کہتے ہیں”الوداع الوداع اے شہر رمضان”اور ان ہی جیسے دیگر الفاظ ومفاہیم بھی سامنے آتے ہیں۔
جبکہ اس طرح اظہار افسوس اور ان الفاظ اور احساسات کا اظہار نہ مقتدمین اور نہ ہی متاخرین محدثین نہ فقہا کی کتابوں اور نہ ہی خلفائے راشدین کے دورِ خلافت یا اس کے بعد کے دور میں ملتا ہے۔لہذا اس طرح کے خطبے روکنے چاہیں کیونکہ:i) یہ الوداعی کلمات پر مشتمل خطبات نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم ، آپ کے صحابہ رضی اللہ اجمعین ، تابعین اور تبع تابعین سے منقول نہیں ہے اور جو فعل ان تینوں زمانوں میں نہ پایا جائے وہ من گھڑت بدعت ہوتی ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ii) رمضان کے گزرنے پر افسوس کا اظہار غیر مشروع ہے کیونکہ روزے کا افطار تو فرحت کے اسباب میں سے ایک سبب ہے اور اس کی دلیل حضرت ابوہریرہ? کی روایت کردہ وہ حدیث ہے جس میں اللہ کے نبی نے فرمایا:”روزہ دار کو دو خوشیاں ملتی ہیں، ایک خوشی اس کو افطار کے وقت ہوتی ہے اور دوسری خوشی جب وہ اللہ تعالیٰ سے ملے گا، اس وقت اس کو ملے گی”(بخاری و مسلم)۔
عید الفطر کے دن نمازِ عید تو مشروع ہی رمضان کے روزے ختم ہونے اور ملک العلام کے حکم کو بجا لانے کی خوشی کی وجہ سے ہے تو پھر پریشان ہونے اور رمضان کا مہینہ گرزنے پر افسوس کا اظہار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔iii) اسلام کے پانچوں ارکان برابردرجہ کے ہیں اور رمضان کے گزرنے کی وجہ سے خصوصی طور پر غم کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں شریعت وارد ہوئی ہے۔ اور اگر یہ قیاس سے لیا ہے تو لازم آتا ہے کہ اس جیسی پریشانی اور تکلیف نماز، روزہ، حج اور زکوٰة ، ہر رکن کے بعد ہونی چاہیے اور اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔جس طرح رمضان کے گزرنے اور دیگر عبادات نماز، حج اور زکوٰة کے اوقات گزرجانے کے درمیان فرق کسی عالم پر مخفی نہیں ہے۔اسی طرح دیگر عبادات کے اوقات کے گزرجانے پرہمیں اظہارِ افسوس نہیں کرنا چاہیے۔iv) اور آخری
بات گرچہ وہ پہلے بھی کہی جا چکی ہے وہ یہ کہ نبی کریم اور صحابہ? کے طریق کی اتباع کرنے میں ہی مکمل خیر ہے اور ان تمام طریقوں، رسموں اور عرف ِ عام میں جاری و ساری باتوں سے پرہیز کیا جائے جو غیر شرعی کو شرعی اور غیر سنت کو سنت سمجھ لینے کے نتیجہ میں انجام دی جاتی ہیں۔ کیونکہ ہر مباح جس کو التزام سے ادا کیا جائے وہ غیر مشروع ہو جاتا ہے۔اور جاہلوں کا عقیدہ خراب ہونے کی صورت اس مباح کا ترک کامل لوگوں پر واجب ہے تو علمائ کرام کو چاہیے کہ اس جیسا خطبہ پڑھنے کا التزام نہ کریں تاکہ یہ اس کے سنت ہونے کے اعتقاد تک نہ پہنچادے۔ جہاں تک کسی دن کی چھٹی کا تعلق ہے تو عام طور پر سرکاری اور نجی اداروں میں تہواروں اور مخصوص سرکاری دنوں کے مواقع پر ہی چھٹیاںدی یا لی جاتی ہیں۔لیکن آج ہمارے وہ ادارے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہ رمضان المبارک کے آخری جمع کی چھٹی کا بھی مخصوص اہتمام کرتے ہیں۔
سوچنا چاہیے اورزیر بحث لانا چاہیے کہ یہ مخصوص چھٹی ہم کیوں مناتے ہیں؟ جبکہ ہمارے ادارے سال کے بقیہ مہینوں میں بھی اور رمضان کے دیگر جمعوں میں بھی چھٹی نہیں کرتے۔توکیا وجہ ہے کہ رمضان کے آخری جمعہ میں اس چھٹی کا مخصوص اہتمام کیا جاتا ہے؟کیا ہم اس جمعہ کو تہوار کی شکل دینا چاہتے ہیں؟ یا اپنے قول و عمل سے اس کی مخصوص فضیلت بیان کرنا ہمارا مقصد ہے؟یہی وہ اعمال و افکار کے تضادات ہیں جن کی بنا پر عام مسلمان جمعة الوداع کے خطبہ کی خاص فضیلت سمجھتے ہوئے حاضر ہونے کا بہت اہتمام کرتے ہیں یہاں تک کہ اگر کوئی اس کو چھوڑ دے تو اس کو برے عقیدے والاگردانتے ہیں۔
یوم القدس:
شرق وسطٰی کی آنکھ” فلسطین “انبیاء کرام کی سرزمین جہاں 1917ئ تک مسلمان بڑی آبرومندانہ زندگی بسر کر رہے تھے، مگر دوسری جانب سویت یونین، یورپ و دنیا کے دیگر حصوں میں یہودیوں کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا تھا۔ اس اثر کو زائل کرنے کے لیے یہاں کے حکمرانوں نے یہودیوں کو اپنے ممالک سے نکال کر باہر پھینکنا شروع کیا۔ یہودیوں نے اپنے سرمائے کے بل بوتے پر برطانیہ اور امریکہ سے اپنے لیے ایک الگ ریاست کا مطالبہ کیا۔ یہودیوں کے اس مطالبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے برطانیہ نے اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے پر عسکری لحاظ سے کمزور اسلامی مملکت فلسطین پر حملہ کیا اور اس کے ایک بڑے حصہ پر قبضہ کرلیا۔برطانوی افواج نے فلسطین کے اس حصہ میں یہودیوں کی آباد کاری کا عمل شروع کیا اور دوسری طرف مسلمانوں کو بیدردی سے تہ تیغ کیا۔
یہاں آباد ہونے والے یہودیوں کو امریکہ اور برطانیہ نے نہ صرف مہلک ہتھیاروں سے لیس کیا، بلکہ ان کی بھرپور فوجی تربیت اور مدد کی۔ فلسطین میں مسلمانوں کی قتل و غارت کا سلسلہ 1947ء تک برطانیہ کی نگرانی میں جاری رہا۔ 1947ء میں فلسطین کی اس اسلامی سرزمین پر غیرقانونی طور پر وجود میں لائی جانے والی ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا۔اسرائیل کے قیام کے بعد برطانیہ نے اپنی افواج فلسطین سے نکال لیں، مگر اس ناجائز یہودی ریاست کے تحفظ کی ذمہ داری امریکہ نے قبول کی۔ اس وقت سے تاحال اسرائیل امریکی سرپرستی میں نہ صرف مظلوم فلسطینی عوام پر جبر و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے بلکہ دنیا بھر کے اسلامی ملکوں کے خلاف ایک گھناونے اور مذموم ایجنڈے پر کاربند ہے۔ امریکہ اپنے ناجائز لے پالک طفل شر کے ذریعے مشرق وسطٰی سمیت تمام اسلامی دنیا کو غیر مستحکم اور پسماندہ رکھنا چاہتا ہے۔
فلسطین کا مرکز قدیم تاریخی شہر “قدس” کا محل وقوع ہے جسے “بیت المقدس” یا “قدس شریف” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ مقدس شہر ان شہروں میں سے ایک ہے جو تمام انسانوں کے نزدیک مقدس ہیں کیونکہ اکثر انبیائ اسی شہر میں مبعوث ہوئے۔ یہ شہر مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کیلئے یکساں متبرک ہے۔ مسلمانوں کا قبلہ اول، مسجد الحرام اور مسجدِ نبوی کے بعد تیسرا حرم ہے۔اللہ کے رسول ہجرت کے بعد بھی سترہ مہینوں تک اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ معراج کے سفر میں بھی یہی شہرآپ کی پہلی منزل تھا۔
اِسی جگہ حضرت داود علیہ السلام کا مدفن اور حضرت عیسیٰ کی جائے ولادت ہے۔یہ وہ مقام ہے جہاں مسجد صخرہ، مسجد الاقصیٰ ، دیوار براق اور کوہ طورہے۔ ایران میں دینی انقلاب کے بعد امام خمینی نے اپنے خطاب میں رمضان کے آخری جمعہ کو “یوم القدس” قرار دیا اور کہا کہ مسلمان اس جمعہ کو اجتماعی وحدت کی علامت قرار دیں ساتھ ہی اس دن کو القدس کی آزادی کے طور پر منائیں۔ امام خمینی کی اس اپیل کو دنیا بھر کے مفکرین اسلام نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی جانب ایک اہم سنگ میل قرار دیا۔
یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ اس دن مخصوص پروگراموں کے ذریعہ اس موضوع کو دنیا کے سامنے سامنے لاتی ہے۔اس کے باوجود یاد رکھنا چاہیے کہ یہ دن بطور دن منا کر امت جو خواب ِ غفلت میں محو ہے، اس کو بیدار نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرف علامہ اقبال نے امت مسلمہ کومتوجہ کرتے ہوئے خود شناسی کی تعلیم دی اور ملت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملتِ مظلوم کا یورپ ہے خریدار
یہ پیر کلیسا کی کرامت ہے کہ اس نے
بجلی کے چراغوں سے منور کیے افکار
جلتا ہے مگر شام و فلسطین پہ مرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدہ دشوار
ترکان جفا پیشہ کے پنجے سے نکل کر
بیچارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار
رمضان المبارک کے اس آخری جمعہ میں مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دین حنیف پر عمل کرنے کامضبوط عزم کریں۔اللہ کے گھر میں اس کے حضور پیش ہو کر اس بات کا عہد کریں کہ وہ جئیں گے تو مسلمان بن کراورمریں گے تو مسلمان!ان کو یہ بات بھی یاد رکھنی ہے کہ وہ ایک امت ہیں۔ نہ صرف یاد رکھنی ہے بلکہ اپنے قول و عمل سے اس بات کی شہادت بھی دینی ہوگی کہ وہ ایک اللہ اور ایک رسول کے ماننے والے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان میں آپس میں ہمدردی و غم خواری اور اخوت و محبت کے جذبات اعلیٰ درجے پائے جاتے ہیں۔اور اسی ایک امت ہونے کا نتیجہ ہے کہ وہ اللہ کے رسول کی اْس حدیث کا سچا مظہر بن جاتے ہیںجس میں فرمایا کہ:”تم مومنوں کوآپس میں ایک دوسرے سے رحم کامعاملہ کرنے۔
ایک دوسرے سے محبت وتعلق رکھنے اورایک دوسرے کے ساتھ مہربانی ومعاونت کاسلوک کرنے میں ایساپائیں گے جیساکہ بدن کا حال ہے کہ جب بدن کاکوئی عضو دکھتاہے توبدن کے باقی اعضاء اس ایک عضو کی وجہ سے ایک دوسرے کوپکارتے ہیں اوربیداری وبخار کے تعب ودرد میں ساراجسم شریک رہتاہے”(بخاری و مسلم)۔ یاد رکھیے !حدیث پر عمل اور وحدت امت ہونے کا شعور یہ امت اسی وقت حاصل کر سکے گی جبکہ اپنی عبادات اور معاملات میں ان تمام خرافات سے نجات پالے جو درحقیقت دینِ حنیف کا حصہ نہیں لیکن پھر بھی وہ قرب الٰہی اور اجر و ثواب کے نام پر انجام دیے جاتے ہیں۔
تحریر : محمد آصف اقبال
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com