پاکستان میں رمضان المبارک کوئی عام رمضان نہیں ہوتا۔ یہ ایک روائت کا نام ہے، ایک ثقافت ہے اور ایک منفرد تہذیب ہے۔ رمضان کا مہینہ سب کے لئے خوشخبری لے کر آتا ہے۔ اس مبارک مہینہ میں سب سے زیادہ خوشی روزہ خوروں کو ہوتی ہے جنہیں روزانہ افطاری پہ جانا ہوتا ہے۔ روزہ دار کا اس مہینہ میں وزن پانچ سے دس کلو گرام کم ہو جاتا ہے مگر ہمارے بھائی بندوں کا جنہوں نے روزانہ روائیتی ضیافتیں اڑانا ہوتی ہیں اور وہ بھی روزہ رکھے بغیر، ان کا وزن دس سے بیس کلو بڑھ جاتا ہے اور وہ باقی گیارہ مہینے میں یہ وزن کم کرتے رہتے ہیں۔ ایسے دوست محفل افطار میں ایسے بیٹھے ہوتے ہیں جیسے انہوں نے بغیر سحری کے روزہ رکھا تھا اور اگر پانچ منٹ اور دیر ہو گئی افطاری میں تو یہ جان سے چلے جائیں گے۔ جیسے ہی افطاری کا اعلان ہوتا ہے ان کے چہرے پر روزہ داروں سے زیادہ اور ذرا مختلف قسم کی رونق آ جاتی ہے۔ روزہ دار پانی مانگتا رہ جاتا ہے اور یہ حضور کھابوں پہ ہاتھ صاف کر کے سب سے پہلے جائے نماز پہ پہنچتے ہیں ،یوں بیچارے روزہ دار اور بھی بھوکے رہ جاتے ہیں۔
اگر اس سے بھی زیادہ خوشی کسی کو حاصل ہوتی ہے تو وہ ہیں منافع خور۔ یہ مسلمان گیارہ مہینے اسی کھوج میں لگے رہتے ہیں کہ اس سال روزے کس مہینے اور کس موسم میں آرہے ہیں۔ کونسی چیز ذخیرہ کریں اور کتنی کریں۔ یہ پھلوں سے لے کر بیسن، دال اورچاول تک ذخیرہ کرتے ہیں اور پھر رمضان میں اسے مہنگے داموں بیچتے ہیں۔ ان مسلمانوں نے کئی سموسے پکوڑے اور پھل سبزی کی ریڑھی والے بُک کئے ہوتے ہیں جو ان کے لئے اس مقدس مہینے کی برکتیں اکٹھی کرتے ہیں۔ ایسے میں برانڈڈ ہوٹلز اور برانڈڈ مصنوعات والے بھی پیچھے نہیں رہتے۔ سارے سال کا بچا ہوا سٹاک اس مہینے نکال لیتے ہیں۔ اور اوپر سے ثواب بھی کما لیتے ہیں کہ ہم نے افطاری پیکج دے کر قیمت کم کر دی ہے۔
جوتے کپڑے والے تو پہلی رمضان سے ہی قیمتوں کے سارے ٹیگ بدل دیتے ہیں۔ سو روپے کی جگہ صرف ایک صفر کا اضافہ کرتے ہیں ۔ یہ سوچ کر کہ صفر کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ یہ اپنے خدا کو دھوکہ دینے میں بھی بے باک ہیں ۔ چاند رات تک وہ اتنےجھوٹ بولتے ہیں کہ پھر انہیں سارا سال گناہ بڑھانے کے لئےجھوٹ بولنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ ان کے پاس رمضان کا سٹاک ہی کافی ہو جاتا ہے۔ یہ تو اللہ عز و جل کی ذات غفور و رحیم ہے ورنہ پاکستان میں حالات دیکھ کر قیامت ہی قائم کر دیے۔
ذرا آگے چلیں تو ہمیں سیاسی افطاریاں نظر آنے لگتی ہیں۔ ہر ماتحت کی کوشش ہوتی ہے کہ صاحب کو ‘کانا ‘ کر لے افطاری کرا کے اور پھر باقی سارا سال اپنے ادارے میں اپنی مرضی کرتا رہے۔ چپڑاسی سے لیکر وزیر اعظم تک سب سیاسی افطاری میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ جہاں ہلکا سا تعلق ہوتا ہے اسے اپنا بنانے کے لئے نہ کہ ثواب کے لئے افطاری کی دعوت دے دی جاتی ہے۔ اب افسران کو بھی سمجھ آ گئی ہے کہ ماتحتان ان کی آنکھ نیچی کرنے کے لئے انہیں افطاری کراتے ہیں۔ اب وہ روزوں کے بعد بھی شرم محسوس نہیں کرتے اور افطاری کا ذرا لحاظ نہیں کرتے۔ اپنی بخشش جو انہوں نے مقرر کر رکھی ہوتی ہے لے کر ہی کام کرتے ہیں چاہے کسی نے کتنی افطاریاں کرائی ہوں۔ ویسے بھی وہ دل میں یہ سوچتے ہیں کہ ان کا کون سا روزہ تھا جو افطاری کا لحاظ کریں۔
سب سے زیادہ موج مولوی اور گدی نشینوں کی ہوتی ہے رمضان کے مہینے میں۔ عشر ، زکوٰۃ کے مال سے لیکر راشن پانی تک اور مرغے بکرے تک سب کچھ مفت میں ملنے کا مہینہ ہوتا ہے۔ اس مہینے میں مقتدی اور مرید کم کھاتے ہیں اور زیادہ نچھاور کرتے ہیں۔ اور ملا اور جعلی پیر انہیں روزہ نہ رکھنے تک کی چھٹی دینے کو تیار ہوتے ہیں۔ گرچہ رمضان سے پہلے بھی ان کا اپنے گھر سے کھانا حرام ہی جیسا ہوتا ہے مگر اس مہینے کی برکت سے تو ان کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ ماننے والے اتنی خدمت کر دیتے ہیں کہ باقی گیارہ مہینے اگر کوئی نہ بھی دے تو خرچہ کم نہیں پڑتا۔
پھر کچھ عرصہ سے یہ این جی اوز آ گئی ہیں۔ جو بہت سے مولیوں اور گدی نشینوں کا حق کھا رہی ہیں۔ ان این جی اوز کی آواز اور خدمات صرف رمضان سے چند دن پہلے سنائی دینے لگتی ہیں اور رمضان کے بعد خاموشی چھا جاتی ہے۔ کسی نے کینسر ہسپتال کا ناٹک کیا ہوا ہے تو کوئی خون کی کمی کا علاج کروا رہا ہے کسی نے یتیموں کو بیوقوف بنایا ہوا ہے۔ یہ بھی ان ہسپتالوں اور فلاحی کاموں کے نام پر اچھی خاصی کمائی کر لیتے ہیں۔ باقی سارا سال ان کا دھندا نہ بھی چلے تو سال آسانی سے گزر جاتا ہے اور پھر اگلا رمضان آجاتا ہے۔
خوشی تو دین داروں کو بھی ہوتی ہے کہ اس مہینے نیکیوں کی بہار ہوتی ہے مگر زیادہ خوشی انہیں ہوتی ہے جن کی ویسے بہار لگ جاتی ہے۔کھابے چندا ، پہناوے،خدمت اور موجاں ہی موجاں۔ یہ ہیں رمضانی لوگ جنہیں رمضانی برکات نے زندہ رکھا ہوا ہے ورنہ یہ کب کے دورے جہاں سدھار گئے ہوتے.