تحریر : شاہ بانو میر
رمضان المبارک کا چاند دیکھ کر روزے شروع کرنے چاہئے شعبان کے آخر میں اگر مطلع ابر آلود ہو تو شعبان کے 30 دن پورے کرنے چاہئے ٬اگر رمضان کے آخر میں مطلع ابر آلود ہو تو رمضان کے 30 دن پورے کرنے چاہئے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا چاند دیکھے بغیر رمضان کے روزے شروع نہ کرو اور چاند دیکھے بغیر بغیر رمضان ختم نہ کرو٬ اگر مطلع ابر آلود ہو تو مہینے کے تیس دن پورے کر لو٬ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا٬ ایک مسلمان کی گواہی پر روزے شروع کئے جا سکتے ہیں حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میں نے بتایا کہ لوگوں نے چاند دیکھا ہے۔
چناچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا ٬اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے٬ رمضان کی پہلی تاریخ کے چاند کے بظاہر چھوٹا یا بڑا ہونے سے شک میں نہیں پڑنا چاہئے ٬ حضرت ابو البختری ؓ کہتے ہیں ہم عمرے کیلئے (مدینے سے روانہ ہوئے) جب نخلہ کے مقام پر پہنچے تو سب نے (نیا) چاند دیکھا٬ کچھ لوگوں نے کہا “” یہ تو تیسری رات کا چاند لگتا ہے “” (بڑا ہونے کی وجہ سے ) کچھ لوگوں نے کہا٬ “” دوسری رات کا لگتا ہے “” ہماری ملاقات حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے ہوئی تو ہم نے اِن سے کہا
ہم نے چاند دیکھا ہے۔
کچھ لوگوں نے اسے تیسری رات کا چاند کہا ہے کچھ نے دوسری رات کا حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے پوچھا تم نے کونسی رات کا چاند دیکھا تھا؟ ہم نے بتایا “” فلاں فلاں رات دیکھا تھا”” تو کہنے لگے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے اللہ تعالیٰ اس کو تمہارے دیکھنے کے لئے بڑا کر دیتا ہے۔
لہذا وہ اسی رات کا چاند تھا٬ جس رات تم نے اسے دیکھا اسے مسلم نے روایت کیا٬ نیا چاند دیکھنے پر یہ دعا پڑھنا مسنون ہے حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب چاند دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے “” یا الہیٰ ہم پر چاند امن ٬ ایمان٬ سلامتی اور اسلام کے ساتھ طلوع فرما(اے چاند)میرا اور تیرا رب اللہ ہے ٬ اسے ترمذی نے روایت کیا چاند دیکھ کر روزہ شروع کرنے اور چاند دیکھ کر ختم کرنے کے لئے اس وقت حاضر علاقے یا ملک کا لحاظ رکھنا چاہئے۔
دوران رمضان ایک ملک سے دوسرے ملک سفر کرنے پر اگر مسافروں کے روزوں کی تعدادحاضر علاقہ میں ماہ رمضان کے روزوں کی تعداد حاضر علاقہ میں ماہ رمضان کے روزوں کی تعداد سے زائد بنتی ہو تو زائد دنوں کے روزے ترک کر دینے چاہیں یا نفل روزے کی نیت سے رکھنے چا ہیں۔ اگر تعداد کم بنتی ہو تو تو عید کے بعد مطلوبہ تعداد پوری کرنی چاہیئے۔
حضرت کریب ؓ (ابن عباسؓ کے غلام ) سے مروی ہے کہ حضرت امِ فضل ؓ (حضرت عباس کی ؓ کی بیوی )نے انہیں (کریبؓ کو ) حضرت معاویہؓ کے پاس (کسی کام سے) شام بھیجا٬ کریب ؓ کہتے ہیں کہ میں نے شام آکر ان کا کام کیا ٬ میں ابھی شام میں ہی تھا کہ رمضان کا چاند نظر آ گیا میں نے بھی جمعہ کی رات کو چاند دیکھا٬ پھر میں رمضان کے آخر میں مدینہ آ گیا حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ نے مجھ سے چاند کے بارے میں دریافت کیا۔
“” کیا تم نے وہاں (چاند) دیکھا تھا؟ “” میں نے جواب دیا “” ہاں “” بہت سے دوسرے آدمیوں نے بھی دیکھا تھا٬ اور سب نے دوسرے دن (ہفتہ) حضرت معاویہ ؓ کے ساتھ روزہ رکھا تھا٬ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا ہم نے تو چاند ہفتہ کے دن (یعنی ایک دن کے فرق سے دیکھا) ہے۔
ہم تو اسی حساب سے روزے رکھتے رہیں گے یہاں تک کہ تیس دن پورے کر لیں یا چاند دیکھ لیں میں نے عرض کیا٬ کیا آپ لوگ حضرت معاویہ ؓ کی روئیت اور ان کے روزے کو کافی نہیں سمجھتے؟ فرمایا نہیں ہمیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی طرح حکم فرمایا ہے اسے احمد اور نسائی نے روایت کیا٬ ابر کی وجہ سے شوال کا چاند دکھائی نہ دے اور روزہ رکھ لیا جائے بعد میں معلوم ہو کہ چاند نظر آ چکا ہے تو روزہ کھول دینا چاہئے۔
تحریر : شاہ بانو میر