تحریر: رشید احمد نعیم
رمضان المبارک کے تیسرے عشرے کی آمد کے ساتھ ہی بھکاریوں کی فوج ظفر موج میدان میں کود پڑی ہے ۔دفتر ہو یا گھر ، مسجد ہو یا چوک ، بس سٹاپ ہو یا شاپنگ سنٹر بازار ہو یا دوکان صبح سے شام تک ہر طرف آپ کو بھکاری بھیک مانگتے نظر آہیں گے۔اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ اسلام میں صدقہ و خیرات کی بہت اہمیت ہے۔مصائب و مشکلات کے خاتمے کے لیے صدقہ و خیرات تیر ِبہدف کا کام کرتا ہے مگر اسلام میں بھیک مانگنے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا ہے۔بھیک مانگنا بہت بُری بات ہے ۔اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے منع فرمایا ہے۔حضوراکرمۖ نے بھی مانگنے کو نا پسند کیا ہے اور محنت کی کمائی سے گُزر بسر کا درس دیا ہے۔ حضرت محمدۖ نے محنت کر کے روزی کمانے والے سے ہمیشہ محبت اور مہربانی کا سلوک کیا ہے۔ایک صحابی کے ہاتھ پر پھاوڑا چلاتے چلاتے گٹے پڑ گئے تھے ۔آپۖ نے اس صحابی کا ہاتھ محبت سے چوم لیا۔
آپۖ کا ارشاد ِگرامی ہے” اللہ اس بندے کو اپنا دوست رکھتا ہے جو صرف اس لیے محنت کرتا ہے کہ وہ مانگنے سے بے نیاز رہے” حضرت محمدۖ بے حد سخی تھے مگر جب کوئی صحت مند اور درست ہاتھ پائوں والا سوال کرتا تو آپۖ کو بھیک مانگنا بے حد نا گوار گزرتا تھا۔حجتہ الوداع کے موقع پر رسول کریم ۖ صدقے کا مال تقسیم فرما رہے تھے ۔آپ ۖ نے دو صحت مند افراد کو قطار میں دیکھا۔آپ ۖ نے ان سے فرمایا” تم چاہو تو میں اس میں سے تم کو بھی دے سکتا ہوں لیکن جو لوگ تندرست ہیں اور محنت کر کے روزی کما سکتے ہیں ، ان کا اس مال میں کوئی حصہ نہیں ہے” ایک دفعہ ایک انصاری آپۖ کے پاس آئے اور مدد کی درخواست کی۔ نبی اکرمۖ نے فرمایا” تمھارے پاس کیا ہے؟” انھوں نے عرض کیا” پانی پینے کا پیالہ اور ایک کمبل ہے جس کا کچھ حصہ بچھا لیتا ہوں اور کچھ اوڑھ لیتا ہوں ”آپۖ نے انصاری سے دونوں چیزیں منگوائیں اور مجلس میں موجود لوگوں سے ارشاد فرمایا” یہ چیزیں کون خریدے گا ”؟ ایک صحابی چار درہم دینے کو تیار ہو گئے ۔
آپۖ نے وہ چیزیں چار درہم میں ان کے حوالے کیں اور رقم انصاری کو دے کر فرمایا” ایک درہم کا کھانا خرید کر گھر دے دو۔ باقی رقم سے کلھاڑا اور رسی خریدو اور جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر شہر میں بیچ کر آیا کرو” پندرہ دن بعد انصاری کے پاس بیس درہم جمع ہو چکے تھے۔اس رقم سے انھوں نے کچھ کا غلہ اور کچھ کا کپڑا خریدا ۔ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو رسول اکرمۖ نے خوش ہو کر فرمایا” تمھاری یہ حالت اچھی ہے یا وہ جب قیامت میں تم چہرے پر گدائی کا داغ لے کر جاتے”َ۔ رسولکریمۖ خود بھی محنت کر کے روزی کماتے تھے۔محنت سے کام کرنے میںآپۖ نے کبھی عار محسوس نہ کی۔آپ ۖ شروع میں لوگوں کی بھیڑ بکریاں معاوضے پر چرایا کرتے تھے۔آپ ۖ کو تجارت کا پیشہ پسند تھا چنانچہ روزی کمانے کے لیے اس پیشے میں بھی محنت اور دیانت داری سے کام لے کر روشن مثال قائم کی۔آپۖ کی بیٹی حضرت فاطمہ خود کنوئیں سے پانی لاتیں۔
اناج پیستیں اور گھر میں جھاڑو دیتی تھیں۔صحابہ کرام بھی محنت سے لوگوں کی خدمت میں کوئی جھجھک محسوس نہ کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق خلیفہ ہوتے ہوئے بھی نہ صرف اپنا کام کرتے بلکہ بیوہ عورتوں اور بوڑھے ہمسایوں کے کام کاج بھی کر دیا کرتے تھے۔ حضرت عمرفاروق لوگوں کا حال جاننے کے لیے رات کو گشت کرتے اور محنت کر کے ضرورت مندوں کی خدمت کیا کرتے تھے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صدقہ و خیرات ضرور کریں مگر پیشہ ور بھکاریوں کی بجائے سفید پوش افرد کی جو چمٹ چمٹ کر سوال نہیں کرتے اور اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لیے معاشی تنگدستی کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں
تحریر: رشید احمد نعیم
03014033622
rasheed03014033622@gmail.com
35103 0406892 7