پیرس (نمائندہ خصوصی) فرانس میں مقیم ممتاز سیاسی و سماجی شخصیت رانا محمد یاسین نے مذہب کو بطور کارڈ استعمال کرنے اور ایک دوسرے کے عقائد پر طنز کرنے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک زہر قاتل ہے اور خاص طور پر قومی سطح کی جماعتوں کو اس سے اجتناب برتنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہبی جماعتیں دونوں ہی ضرورت کے مطابق خصوصاًانتخابات سے پہلے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرتی آئی ہیں۔ ایک دوسرے کو ذریعہ بنا کر مذہب کا کارڈ استعمال کیاجاتا ہے۔ یہ سب افسوسناک حد تک پھیلا ہوا زہر ہے اس سے ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کا کلچر فروغ پارہا ہے جو کبھی ایک فریق تو کبھی دوسری فریق کو متاثر کر رہا ہے جب کہ اس میں بے گناہوں کو بھی سزا مل رہی ہے اس لئے مذہب کو پاکستان میں بہت اہمیت دی جاتی ہے مگر غیر ملکی فنڈز اور خالصتاً عدالتی یا عائلی یا معاشرتی ایشوز کو بنیاد بنا کر فتوے جاری کرنا بہت ہی سنگین ہے اس سے اجتناب برتنے کیلئے حکومت کو قانون سازی کرنی چاہیے۔
1956میں پاکستان کے ساتھ “اسلامی جمہوریہ” کا لفظ لگنے کے بعد سے مذہب کے نام پر جو بھی جماعتیں بنائی گئیں ،وہ کبھی قومی و صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل نہیں کر سکیں۔ جس کی وجہ سے انکو کچھ نہ کچھ ایسا کرنا پڑتا رہاہے ،جس سے وہ طاقت ور اداروں کی حمایت حاصل کرسکیں اور بعدمیں کامیاب سیاسی جماعتوں یا پھر آپس میں الحاق کرکے اپنا ایک خصوصی ووٹ بنک بنا لیں، جو صرف انکو ووٹ دے۔ لہٰذا مذہبی جماعتوں کے ووٹر زیادہ مذہبی گھرانے کے کم تعلیم یافتہ وہ لوگ ہیں جو زیادہ تر فاٹا کے قبائلی علاقوں میں بستے ہیں ،مدرسوں کے طلباءہوتے ہیں ،یا پسماندہ علاقوں میں رہتے ہیں۔ جن کو شریعت کے نفاذ کے نام پرباآسانی ورغلایاجاسکتا ہے اور انہیں اپنے حق میں ووٹ ڈالنے پر آمادہ کر لیا جاتا ہے۔ مذہبی جماعتیں اس خاص طبقے کوووٹ حاصل کرنے کے لیے جو جو لالچ دیتی ہوئی نظر آتی ہیں وہ سب یہ ہیں کہ منتخب ہوکر اقتدار میں آنے کے بعد اسلامی اور شرعی احکامات کے مطابق معاشرے کی تشکیل، مدرسوں اور مسجدوں کا قیام، توہین رسالت اورختم نبوت کے حوالے سے قوانین کی حفاظت کریں گے۔