تحریر : امتیاز علی شاکر: لاہور
گزشتہ روزمنتخب ایوان سندھ میں منظورکی جانے والی قرارداد کے مطابق رینجرز کے اختیارات میں12ماہ کی توسیع کی گئی جبکہ رینجرز کو صرف اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگردی کیخلاف کارروائی کی اجازت ہوگی۔حکومتی سرپرستی میں چلنے والی کرپشن بچائومہم کی کامیابی کومدنظر رکھتے ہوئے قرارداد میں شامل شرائط کے تحت رینجرز کرپشن کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کرنے کی اہل نہیں ہوگی اور نہ ہی چیف سیکریٹری کی اجازت کے بغیر کسی سرکاری دفتر میں چھاپہ مارسکتی ہے،کسی بھی اہم شخصیت کی گرفتاری، حکومتی دفتر پر چھاپہ اور کسی بھی شخص کے خلاف جو دہشت گردی میں براہ راست ملوث نہ ہو بلکہ صرف دہشت گردوں کا معاون ہونے کے شک کی صورت میں اسے گرفتار کرنے سے پہلے بھی وزیراعلیٰ سے تحریری طور پر اجازت لینا ہوگی۔ قرارداد کے مطابق رینجرز اب صرف پولیس کے علاوہ کسی اور ادارے کی مدد نہیں کرسکے گی۔یعنی دہشتگردوں کے سہولت کاروں، مددگاروں، مالی معاونت کرنے والوں اورخاص طورپرکرپشن کے بے تاج بادشاہوں کی جانب کسی کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی اجازت نہیں رہی۔جیب کتروں کیخلاف کارروائی ہوگی اورگردن کاٹنے والوں کوگرفتارکرنے سے اُن کے فرارہونے اورشواہدکے خاتمے تک تحریری اجازت نامے کا انتظارکرناہوگا۔
زیادہ بہترہوتاسندھ اسمبلی کی پاس کردہ قرارداد میں رینجرز کوٹارگٹ کلرز ، بھتہ خوروں ، قاتلوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کرنے کے اختیارت دیتے وقت یہ بھی بتادیاجاتاکہ بغیرتحقیقات کے کیسے ثابت ہوگاکہ کون ٹارگٹ کلر، بھتہ خور ، قاتل یا جرائم پیشہ ہے کیونکہ ‘مجرم ‘کسی کی پیشانی پر تولکھانہیں ہوتا۔غور طلب بات یہ ہے کہ مجرم سرکاری دفترمیں ہویاغیرسرکاری کارروائی کرنے والے ادارے کو اُسے گرفتار کرنے کیلئے وزیراعلیٰ کی اجازت کا پابندکرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟کیاوزیراعلیٰ سندھ سب ٹارگٹ کلرز ، بھتہ خوروں ، قاتلوں ،ان کے سہولت کاروں اور باقی جرائم پیشہ افرادکواچھی طرح پہچانتے ہیں؟ یاپھر اپنے دوستوں کوبچانے کیلئے اجازت نامے کی شرط رکھی گئی ہے؟کیونکہ ڈگری ،ڈگری ہوتی ہے جعلی ہویااصلی اسلئے دوستوں کی جان عزیزہے توپھرلیاقت علی خان کے کھاتے میں ڈال کرتمام اقرباکوتاریخی کرپٹ ڈکلیئرکرتے ہوئے رینجرزکواجازت نامے کا پابندکرنے کی بجائے اُن کے ناموں اورکرتوتوںکی لسٹ فراہم کرکے قبل ازوقت ہی گرفتاری روک دیں
باقی جرائم پیشہ عناصر کیخلاف آپریشن جاری رکھنے کیلئے رینجرزکومکمل اختیارات دئیے جاتے توزیادہ بہترہوتا،کراچی کے امن وامن کو تباہ کرنے والے ٹارگٹ کلرز ، بھتہ خور، قاتل اور جرائم پیشہ عناصر اتنے ہی سادہ اورکمزور نہیں کہ بے اختیاررینجرزاُن کوکیفرکردارتک پہنچاسکے۔عوام یہ باتیں سوچنے پرمجبور ہیں کہ سیاسی قیادت اتنی قابل یامخلص ہوتی توآج کراچی کے حالات تباہی کا شکارہونے کی بجائے ماضی کی طرح روشنیوں کامنظرپیش کررہے ہوتے ،وزیراعلیٰ سندھ شہرقائدکا امن وامان بحال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں توپھراپنے گزشتہ پانچ سالہ دوراقتدار میں کراچی کی خراب صورتحال میں بہتری کیوں نہ لاسکے؟رینجرزوزیراعلیٰ سندھ سے اجازت لے کرآپریشن کرنے کی بجائے وزیراعلیٰ سندھ اوردیگرسیاسی کرداروں کوفرنٹ پررکھے اورجہاں کہیں شہادت کی ضرورت پیش آئے اب فوجی جوانوں کی بجائے سیاست دانوں کی جان قربان کی جائے تاکہ ان کو معلوم ہوسکے کہ دہشتگردوں کیخلاف جنگ لڑنا آسان نہیں جبکہ آگے پیچھے سیکورٹی فورسیز کی گاڑیوں کے قافلے میں گھریادفترسے نکلنا بہت آسان ہے۔سیاستدان ملک وقوم پر جان قربان کرنے والے افواج پر حکم چلاسکتے ہیں توکیاجان قربان نہیں کرسکتے؟
جتناایک فوجی جوان کا پاکستان پرحق ہے اُتنایااُس بھی زیادہ ایک سیاستدان کاہے توپھرگولیاں سینے پرکھانے کیلئے ہربارفوجی جوان ہی کیوں آگے آئیں ۔وفاقی حکومت کراچی آپریشن میں رینجرزکے اختیارات کے حوالے سے سنجیدہ ہے توپھر جلداقدامات کرے تاکہ اس معاملے کو لٹکاکرکرپشن اوردہشتگردوں کے سہولت کاروں اورساتھیوں کیخلاف شواہدختم کرنے کی کوشش کامیاب نہ ہو۔دہشتگردی صرف کراچی کامعاملہ نہیں بلکہ پوری دنیا اس آگ میں سلگ رہی ہے ۔سعوددی عرب نے34ممالک پرمشتمل عسکری اتحادبنانے کا اعلان کردیاہے اورہم ابھی تک ایک شہرکاامن وامان بحال کرناتودورکی بات ہے وہاں جاری آپریشن جوخاصی حد تک کامیابی کی طرف گامزن ہے کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں ۔عوامی حلقوں میںعام خیال پایاجاتاہے افواج پاکستان کوبیرونی اوراندرونی دشمنوں کیخلاف کارروائی کرنے کیلئے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ،وہ ملک وقوم کی حفاظت کرتے وقت اپنی جانوں کی پروانہیں کرتے توپھروزیراعلیٰ کی اجازت کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے۔
ڈگری ،ڈگری ہوتی ہے جعلی ہویااصلی۔دہشتگردی ،دہشتگردی ہوتی ہے اورکرپشن ،کرپشن ہوتی ہے،لیاقت علی خان کے دورسے شروع ہویاقائم علی شاہ کے دورمیںاس لئے اب ہمیں یہ نہ سمجھایا جائے کہ دہشتگردی کب اورکیسے شروع ہوئی ،اب توعوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ دہشتگردی ختم کیسے ہوگی اورکون ختم کرے گا؟میری عزیزسیاسی قیادت کویہ یقین ہوچلاہے کہ کراچی آپریشن رینجرزکے ہاتھوں میں رہاتوپھربہت جلدکراچی سے دہشتگردی کاخاتمہ ہوجائے گادہشت ختم ہوگئی توپھرجانی کرپشن کرنابھی مشکل ترہوجائے گا۔وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ صاحب کی خدمت میں ایک عرض کرتاچلوں کہ پاکستانی عوام دہشتگردی کاخاتمہ چاہتے ہیں دہشتگردوں کا نہیں اس لئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں آپ کے جوساتھی یاآپ خودکوئی غلطی کربیٹھے ہیں تواعتراف جرم کرلیں یہ قوم بڑی سادہ اورسخی بادشاہ ہے معاف کردے گی
سوچینے کی بات ہے کہ جوقوم انتہائی کرپٹ لوگوں کووٹ دے کرحکمران بناسکتی ہے وہ اپنے حکمرانوں کی غلطی بلکہ غلطیاں بھی معاف کرسکتی ہے؟۔طاقتورقاتلوہاتھ پائوں مارلوجتنے مار سکتے ہو،ہوسکتاہے آج بچ جائوپریہ مت سوچ لیناکہ ہم تمہیں چھوڑ دیں گے اب تمہیںکیفرکرادر تک پہنچاکرہی دم لے گی یہ قوم ۔ افواج پاکستان وہ طوطاہے جس میں وطن عزیزکی جان ہے اس لئے اپنے افواج کے ساتھ پوری قوم شانہ بشانہ کھڑی ہے ۔ماضی میں فوج اقتدارپرقبضہ کرلیاکرتی تھی اورسیاستدانوں کو شہادت کادرجہ مل جاتاتھااب ایسے حالات نظر نہیں آتے ،اب شہادت اُسے ہی نصیب ہوگی جوسینے پرگولی کھائے گا۔
تحریر : امتیاز علی شاکر: لاہور
imtiazali470@gmail.com