counter easy hit

پنجاب میں رینجرز خوش آمدید، حذیفہ رحمان

rangers-operation-in-punjab
rangers-operation-in-punjab

کسی حکیم کا قول ہے کہ کامیابی کا حصول اتنا اہم نہیں جتنا مقصد کا انتخاب ہے ۔مگر بدقسمتی رہی ہے کہ مقصد کے انتخاب پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔دو سال قبل پشاور کے اے پی ایس اسکول پر ہونے والی بدترین دہشت گردی کی کارروائی نے پوری قوم کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔ایک ایسا واقعہ جس کے بعد پوری دنیاسوگ میں ڈوبی نظر آئی۔مگر اس سانحہ نے پوری قوم کو متحد کرکے رکھ دیا ۔تمام سیاسی جماعتوں نے یک زبان ہوکر دہشت گردی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جو کئی ماہ سے دھرنوں پر تھے،انہیں بھی اپنا دھرنا ختم کرکے سیاسی و عسکری قیادت کے ساتھ آکر بیٹھنا پڑا۔پشاور سانحہ کے 8دن بعد 24دسمبر کو وزیر اعظم نوازشریف کی قیادت میں تمام سیاسی اور عسکری قیادت نے دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی اور فوجی عدالتوں کے قیام پر اتفاق کیا۔20نکاتی نیشنل ایکشن پلان کے سامنے آنے کے بعد وزیراعظم نوازشریف نے اپنے عزم کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ ’’ہمیں جلد از جلد قومی لائحہ عمل پر عمل درآمد کرنا ہے اور یہ پاکستان کیلئے فیصلہ کن وقت ہے، ہم دہشت گردوں کا صفایا کرکے رہیں گے ‘‘ وزیر اعظم کا یہ اعلان دراصل ملک کی پوری سیاسی قیادت کی طرف سے ایک اتفاق رائے تھا ۔جس کا مقصد دہشت گردوں کا ملک سے صفایا اور ایک پرامن پاکستان تھا۔نیشنل ایکشن پلان کے سامنے آنے کے بعد وزیر اعظم نے نیشنل ایکشن پلان کے نکات پرتقریر کرتے ہوئے قوم کو اعتماد میں لیا۔جس کے بعد صوبائی سطح پر اپیکس کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔تمام وزرائے اعلیٰ اور کورکمانڈرز کی مشترکہ سربراہی میں ہر صوبے کے لئے اپیکس کمیٹیاں قائم کی گئیں۔

نیشنل ایکشن پلان کا ایک اہم نکتہ کراچی میںجاری آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانا بھی تھا۔جس پر بہرحال سندھ اور خاص طورپر کراچی کی تمام سیاسی جماعتیں مبارکباد کی مستحق ہیں کہ انہوں نے آپریشن میں رینجرز کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔اسی نیشنل ایکشن پلان کا ایک نکتہ ملک کے دیگر حصوں کی طرح پنجاب میںبھی دہشت گردی کا خاتمہ تھا۔پلان کے 15ویں نکات میں واضح لکھا گیا تھا کہ” ملک کے ہر حصے کی طرح پنجاب میںبھی انتہا پسندی کے لئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی جائے گی ـ” انہی نکات کے تحت پنجاب میں قانون نافذ کرنے والوں اداروں نے نسبتاًبہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کالعدم تنظیم کا اہم سربراہ ملک اسحق اپنے ساتھیوں سمیت پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ جس کے بارے میں پورے ملک میں ایک تاثر تھا کہ جب راولپنڈی میں اہم ادارے پر دہشت گردوں نے حملہ کرکے کچھ افسران کو یرغمال بنانے کی کوشش کی تھی تو ملک اسحاق کو ہی کوٹ لکھپت جیل لاہور سے خصوصی ہیلی کاپٹر کے ذریعے راولپنڈی لیجایا گیا اور ڈاکٹر عثمان سمیت دیگر دہشت گردوں سے مذاکرات کرائے گئے تھے۔ اس کے علاوہ صوبے میں چھوٹے موٹے اشتہاری گینگ جن میں دریائے سندھ کےکچے کے علاقے میں چھوٹو مزاری ،لادی اور دیگر گینگ کا خاتمہ کیا گیا۔سیاسی حکومت کا موقف ہے کہ نفرت انگیرز تقاریر،شرپسند مواد اور لاؤڈ اسپیکر کے غلط استعمال سمیت چھ سے زائد حساس معاملات پر نئی قانون سازی کی گئی۔تمام مدارس کا مکمل آڈٹ کراکر رپورٹس اپیکس کمیٹی کو بھجوائی گئی۔فورتھ شیڈول میں شامل افراد کی باقاعدہ متعلقہ تھانوں میں رجسٹریشن کرائی گئی اور ان افراد کے پاؤں میں کڑا ڈالا گیا۔لیکن ان سب بالا اقدامات کے باوجود گزشتہ چند ماہ کے دوران یہ مطالبہ شدت سے کیا گیا کہ پنجاب میں بھی سندھ کی طرز پر رینجرز کو طلب کیا جائے۔ماضی میں رینجرز و دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت سے پنجاب کے آخری ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان میں جو آپریشن چھوٹو گینگ کے خلاف کیا گیا۔ 

میڈیاکی اکثریت سمیت تمام مخصوص حلقوں نے تاثر دیا کہ روجھان مزاری میں چھوٹو گینگ نے بڑے دہشت گرد گروہوں کو پناہ دی ہوئی ہے۔مگر جب آپریشن منطقی انجام تک پہنچا تو چھوٹو مزاری کے علاوہ کوئی اور گرفتار نہ ہوسکا۔ چھوٹو گینگ کو گرفتار کرکے حساس اداروں کی تحویل میں دیا گیا۔مگر بالآخر اس کو یہ کہہ کر پنجاب حکومت کی جے آئی ٹی کے حوالے کیا گیا کہ یہ صرف علاقائی کریمنل ہے۔گزشتہ چند دنوں سے ایک مرتبہ پھر پورے صوبے میں یہ فضا قائم کی گئی کہ پنجاب میں رینجرز ناگزیر ہیں۔جس کے بعد وزارت داخلہ پنجاب نے ایک سمری وزیراعلیٰ شہباز شریف کو بھجوا دی،جو منظوری کے بعد وفاقی وزیر داخلہ کو بھجوائی جائے گی۔رینجرز کے معاملے پر پنجاب حکومت کا اب بھی یہ موقف ہے کہ رینجرز کو صوبے میں پولیس کے اختیارات نہیں دئیے جائیں گے بلکہ رینجرز پولیس اور سی ٹی ڈی کے ساتھ مل کر انٹیلی جنس آپریشن کرے گی۔پنجاب کے سینئر صوبائی وزیر رانا ثنااللہ نے برطانونی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں موقف دیا ہے کہ پنجاب میں رینجرز پہلے بھی موجود تھی مگر اب اس کی تعداد بڑھائی جارہی ہے۔جس طرح ماضی میں راجن پور کے کچے علاقے میں رینجرز نے پولیس کے ساتھ مل کر کارروائی کی اب صوبے کے مختلف حصوں میں اپیکس کمیٹیوں کی منظوری سے کارروائی کی جائے گی۔یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ صوبے کے ہر کونے سے دہشت گردی کا خاتمہ ہونا اشد ضروری ہے ۔لیکن کیا یہ درست ہے کہ محض پنجاب میں رینجرز کی ضرورت صرف اس لئے ہے کہ سندھ میں بھی رینجرز موجود ہے۔پنجاب میں رینجرز آپریشن کی حمایت کرنے والے صرف یہ بتادیں کہ صوبے میں ایسی کونسی جگہ ہے جہاں پر کراچی جیسے حالات ہیں۔کیا پنجاب کے لوگ دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ پرسکون اور محفوظ زندگی نہیں گزار رہے ؟محض اس لئےکہ کوئی دوسرا صوبہ راضی ہو ،پنجاب میں رینجرز کو بلایا جائے مناسب نہیں ہوگا۔اگر حالات ناگزیر ہیں تو ضرور بلایا جائےوگرنہ دیکھا گیا ہے کہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کے زیادہ بہتر نتائج سامنے آئے ہیں ۔

صوبے میں رینجرز کی آمد میں تاخیر کی وجہ بھی یہی تھی کہ جب پہلے ہی رینجرز و دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے پولیس کے ساتھ مل کر انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائیاں کررہے ہیں تو پھر باقاعدہ طور پر ایک ادارے کو مصروف کرنے کیا ضرورت ہے۔کیونکہ یہ ہماری آخری ڈیفنس لائن ہے،جو ہمارے بارڈر اور سرحدوں کی محافظ ہے۔پوری دنیا کا اصول ہے کہ فوج کو کبھی بھی شہری حلقوں میں مصروف نہیں کیا جاتا۔ہاں ،کراچی میں ناگزیر حالات تھے ،جس پر رینجرز کو مکمل اختیارات دئیے گئے۔بلاشبہ انہوں نے وہاں پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔مگر کراچی میں بھی اب اس معاملے کا سیاسی حل نکالیں۔کیونکہ ہمیشہ معاملات کا سیاسی حل ہی دیرپا اور دوررس نتائج کا حامل ہوتا ہے۔آپ سندھ میں ان کا قیام جتنا طویل کریں گے اتناادارے کے متنازع ہونے کا خدشہ ہوگا۔تمام مہذب ممالک میں آزمودہ اصول ہے کہ فوج جتنا شہری علاقوں سے دور رہے گی اتنا ہی غیر متنازع ہوگی۔ہم سب کو چاہئے کہ اداروںکی ساکھ کو نقصان پہنچانے سے بچائیں۔اب اگر پنجاب میں رینجرز کو صرف اس لئے بلایا گیا ہے کہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی یہ موجود ہے تو یہ کوئی معقول توجیہہ نہیں ہوگی۔ہاں اگر حالات واقعی ناگزیر ہیں تو اس پر پورے صوبے کےعوام کو اعتماد میں لیں اور کارروائیوں کا آغاز کریں۔کیونکہ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ ن اور وزیراعظم نوازشریف پنجاب کے مینڈیٹ کے بل بوتے پر سویلین بالادستی اور ایگزیکٹو کی مضبوطی کی بات کرتے ہیں۔جب صوبائی چیف ایگزیکٹو کے اختیارات ہی تقسیم ہوجائیں گے تو حکمران جماعت خود بخود کمزور ہوناشروع ہوجائے گی۔اگر واقعی ایسا ہے تو پھر کسی کے لئے بھی نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔

 

 

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website