کراچی: انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی ملزم سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) راؤ انوار کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے ملزم کو 10 لاکھ کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دے دیا۔
واضح رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو گزشتہ ہفتے ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔
کمرہ عدالت میں راؤ انوار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ‘راؤ انوار کا نام نقیب قتل کیس میں زبردستی شامل کیا گیا’۔
خیال رہے کہ عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس میں راو انوار کی درخواست ضمانت پر فیصلہ 5 جولائی کو محفوظ کیا تھا جو آج (10 جولائی) کو سنایا گیا
گزشتہ سماعت میں صلاح الدین پہنور ایڈووکیٹ نے دلائل دیے تھے کہ نقیب اللہ کو ساتھیوں سمیت رات 3 بج کر 21 منٹ پر جعلی مقابلے میں قتل کیا گیا جبکہ راؤ انوار کی جانب سے مقابلے سے 2 گھنٹے پہلے ایک بج کر 21 منٹ پر پریس کانفرنس میں نقیب اللہ اور ان کے دیگر ساتھیوں کے قتل کی تصدیق کی گئی۔
صلاح الدین پہنور نے کہا تھا کہ مقابلہ بعد میں کیا گیا تو ملزمان کے قتل کی تصدیق پہلے کیسے کی جاسکتی ہے، راؤ انوار مقابلے کے وقت جائے وقوع پر موجود تھے۔
عدالت کی جانب سے راؤ انوار کی ضمانت درخواست منظور ہونے کی مخالفت میں مقدمے کے مدعی نے کہا کہ ‘جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق راؤ انوار جائے وقوعہ پر موجود تھے اور انہوں نے اس حوالے سے میڈیا کو بریفنگ بھی دی تھی‘۔
راؤ انوار کی درخواست ضمانت منظور کے خلاف نقیب اللہ محسود کے والد اور دیگر نے موقف اختیار کیا کہ وہ فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جے آئی ٹی اور استغاثہ کی جانب سے مرتب کی گئی رپورٹ کو بھی عدالت نے مسترد کیا جو کہ غیرقانونی ہے لہذٰا وہ فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔
اس حوالے سے کا مزید کہنا تھا کہ اگر راؤ انوار کو رہائی ملی تو مقتول نقیب اللہ محسود کے اہلخانہ کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی مدعی کے وکیل کی جانب سے دراخواست دائر کی گئی تھی جس میں ‘نقیب اللہ محسود کے اہلخانہ کو تحفظ فراہم کرنے کی استدعا کی گئی تھی‘۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ‘راؤ انوار جیل میں بھی بیٹھیں ہیں لیکن اس کے باوجود اہلخانہ کو دھمکی آمیز کال بھی موصول ہورہی ہیں اور اگر ملزمان بری ہو گئے تو ان کی جان کو خطرہ ہے‘۔
نقیب اللہ محسود کا قتل
خیال رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو رواں سال جنوری میں سابق ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔
پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔
ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔
اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔
نقیب اللہ کے قریبی عزیز نے بتایا تھا کہ رواں ماہ کے آغاز میں نقیب اللہ کو سہراب گوٹھ پر واقع کپڑوں کی دکان سے سادہ لباس افراد مبینہ طور پر اٹھا کر لے گئے تھے جبکہ 13 جنوری کو پتہ چلا تھا کہ اسے مقابلے میں قتل کردیا گیا۔
بعد ازاں 19 جنوری کو چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے کراچی میں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے قتل کیے جانے والے نقیب اللہ محسود پر از خود نوٹس لیا تھا۔
جس کے بعد مذکورہ کیس کی متعدد سماعتیں ہوئیں جن میں سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو پولیس حکام کے پیش ہونے کا موقع بھی دیا تاہم 21 مارچ 2018 کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے تھے اور سماعت کے بعد انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔