تحریر : اختر سردار چودھری
راشد منہاس کے خاندان کا تعلق گرداس پور جموں کشمیر سے تھا۔ قیام پاکستان کے فورا بعد ان کے والدین پاکستان ہجرت کرکے آ گئے اور سیالکوٹ کے قریب قیام پذیرہوئے تھے ۔پھر لاہور ، کچھ عرصہ راولپنڈی اور وہاں سے کراچی شفٹ ہوئے ۔راشد منہاس 17 فروری 1951 ء کو لاہور میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم کوئین میری اسکول سے حاصل کی، اس کے بعد والدین جب راولپنڈی شفٹ ہوئے تو وہاں سینٹ میری اکیڈمی میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا ۔بعد ازاں مستقل رہائش کراچی منتقل ہوئی تو سینٹ پیٹرک کالج میں داخلہ لے لیا جب 6 ستمبر 1965 ء کی جنگ میں راشد منہاس کی عمر 14 سال تھی ۔اس جنگ میں ایم ایم عالم نے سرگودھا کے محاذ پر پانچ انڈین جنگی طیارے ایک منٹ کے اندر مار گرائے تھے ۔اور عالمی ریکارڈ بنایا تھا ۔راشد منہاس نے اسی وقت فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ بڑے ہو کر اقبال کے شاہین کی طرح دشمنوں کا فضائوں میں مقابلہ کریں گے۔
راشد منہاس کی ڈائری سے پتا چلتا ہے کہ 6ستمبر کی جنگ نے راشد منہاس کے مقصد حیات کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ راشد نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ ہر حال میں پاکستان ائیر فورس جوائن کریں گے۔سولہ سال کی عمر میں انہوں نے او لیول پاس کیا اورپھر جامعہ کراچی سے ملٹری اینڈ ایوی ایشن ہسٹری کی تعلیم حاصل کی تھی ۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے پاکستان ایئرفورس میں شمولیت اختیار کرنے کا ارادہ کیا۔
انکے خاندان کے بہت سے افراد مسلح افواج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ان کے ماموں ونگ کمانڈر سعید نے راشد منہاس کاجذبہ ،شوق کو سامنے رکھتے ہوئے کوشش کی اور راشد منہاس نے1968 ء میں پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کر لی ۔ ان کو پاک فضائیہ میں سلیکٹ ہونے کے بعد ٹریننگ کیلئے کوہاٹ اور کچھ عرصہ بعد رسالپور بھیج دیا گیا۔ وہاں انہوں نے پاکستان ایئرفورس اکیڈمی سے فلائٹ کیڈٹ کی تربیت حاصل کی ۔13 مارچ 1971 ء کوانہو ں نے پاک فضائیہ میں کمیشن حاصل کیا۔
20 اگست 1971 ء کی بات ہے کہ راشد منہاس مسرور ایئر بیس سے اپنی تیسری تنہا پرواز کے لئے Tـ33جیٹ سے روانہ ہونے لگے تو اچانک ان کے بنگالی انسٹرکٹرمطیع الرحمان نے انہیں رکنے کا اشارہ دیا اور طیارے میں سوار ہوگئے ۔ حالانکہ ایسی پروازیں تنہا کی جاتی ہیں۔نہ صرف مطیع الرحمن طیارے میں سوار ہوئے بلکہ انہوں نے طیارہ خود کنٹرول کرنا شروع کر دیا۔خیر جب راشد منہاس نے محسوس کیا کہ مطیع الرحمان طیارے کو اڑا کر بھارت لے جانا چاہتے ہیں یعنی طیارہ اغواء کرلیا گیا ہے۔
راشد منہاس نے اس موقع پرپی اے ایف مسرور بیس میں صبح ساڑھے گیارہ بجے کے قریب رابطہ کیااور طیارے کے اغواء ہونے سے متعلق آگاہ کیا۔کنٹرول ٹاور پر نشر ہونے والے راشد منہاس شہید کے آخری پیغام ۔ان کی چیختی ہوئی آواز یں۔اس چیز کی گواہ ہے کہ ان پیغامات کو نشر کرتے وقت وہ کسی سے دست و گریبان تھے ۔وہ کہہ رہے تھے ۔”میں ۔۔میں طیارے کو دشمن کے ہاتھوں میں نہیں جانے دوں گا۔۔آپ انسٹرکٹر کے ۔۔ساتھیوں کا پتا چلوائیں۔۔”
یہ آخری الفاظ تھے۔اس وقت طیارہ بھارت کی سرحد سے 64 کلو میٹر دور تھا ۔جب راشد منہاس شہید کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ اب طیارے پر قابو پانا اس کے بس میں نہیں رہا ۔تو اس کے سامنے دو راستے تھے ۔اول یہ کہ طیارہ اغوا ہونے دیا جائے ۔اس سے ایک تو وہ قیدی بن جاتا ۔ایک طیارے کا ملک کو نقصان ہوتا ۔اور مطیع الرحمن جو پاکستان کے راز اپنے ساتھ لے جا رہا تھا وہ بھی دشمن کے ہاتھ لگ جاتے ۔دوسرا راستہ میں طیارہ ،پاکستان کے قیمتی راز کو دشمن کے ہاتھوں لگنے سے بچایا جا سکتا تھا اور یہ راستہ شہادت کا تھا۔
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
”میں جنگی قیدی بننے سے مرجانا بہتر سمجھتا ہوں۔”راشد منہاس نے اپنی شہادت سے چند دن پہلے اپنی چھوٹی بہن سے کہا تھا۔ان سب باتوں پر خوب صورت آنکھوں والے، دبلا پتلے ،چست بدن کے بیس سالہ نوجوان نے سوچا تو ہو گا ۔پھر اس نے طیارے کا رخ زمین کی طرف کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے طیارہ گرکر تباہ ہوگیا۔اس وقت انڈین بارڈر سے 32میل کے فاصلے پرجہازگر کر تباہ ہواتھا۔
جس جگہ طیارہ گرا تھا ۔اسے اب” شہید ڈیرہ” کا نام دے دیا گیا ہے ۔پہلے اس کا نام ” جنڈے ” تھا ۔یہ علاقہ کراچی سے شمال مشرق کی طرف دریائے سندھ کے کنارے تھوڑے فاصلے پر واقع ہے قوم وطن کے اس ہونہار فرزند کو سلام پیش کرتی ہے ۔جب تک ملک کے دفاع کرنے والے ایسے اقبال کے شاہین سلامت ہیں، دشمن اس ملک کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔
حکومت پاکستان نے راشد منہاس کو اعلی ترین فوجی اعزاز “نشانِ حیدر” سے نوازاوہ اعلی ترین فوجی اعزاز حاصل کرنے والے مسلح افواج کے کم عمر ترین اور پاک فضائیہ کے واحد افسر ہیں۔ ”نشان ِحیدر” پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے۔اور اس کے علاوہ اٹک میں قائم کامرہ ایئر بیس کو ان کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے۔
تحریر : اختر سردار چودھری