تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
محترم مجیب الرحمٰن شامی کو پتہ نہیں کیا سوجھی کہ اُنہوںنے ” ویلنٹائن ڈے” پررائل پام میںCPNE کی تقریب منعقد کرڈالی جس کے مہمانِ خصوصی وزیرِاعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف تھے۔اُدھر عاشقان سڑکوںپر گلاب کے پھول ہاتھوںمیں لیے قطار اندر قطار کھڑے ”ایک محبت کاسوال ہے بابا”کہہ کرکسی حسینۂ دلنوازسے تھپڑکھارہے تھے اور کسی سے گالیاں سُن کربھی بَدمزہ نہیں ہورہے تھے اوراِدھر وزیرِاعظم صاحب صحافیوںسے ”ہتھ ہولارکھنے”کاتقاضہ کررہے تھے۔یہ شاید ویلنٹائن ڈے کااثرتھا کہ وزیرِاعظم صاحب کا انداز بھی کچھ کچھ عاشقانہ ہی تھا۔صحافتی ”محبوباؤں”کے جھرمٹ میںوزیرِاعظم صاحب سنبھل سنبھل کے کچھ یوںکہتے نظرآئے کہ
یہ کیسا دستورِ زباں بندی ہے تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
وزیرِاعظم صاحب کو احساس تھا کہ اُن کی زبان سے نکلے ہوئے چندتلخ جملے بھی رائی کاپہاڑ بنادیںگے اورنیوزچینلز پر”ہا ہاکار”مَچ جائے گی ۔یہی وجہ ہے کہ اُنہوںنے صحافیوںکوایسے ہی مخاطب کیاجیسے کوئی عاشقِ صادق اپنی محبوبۂ دِلنوازکو اپنے دِل کاحال بیان کررہاہو ۔یوںتو میاںصاحب کی تقریرکا لُبِ لباب ”رکھ دیاقدموں میںدِل نذرانہ ،قبول کرلو” ہی تھا لیکن اُنہوںنے کچھ گلے شکوے بھی کیے اور چھیڑچھاڑبھی ۔اُنہوں نے جہاں CPNEکے لیے اسلام آبادمیں قطعۂ زمین دینے کاوعدہ کیااور پانچ کروڑ روپے کی امدادبھی ،وہیںمیڈیاہاؤسز کے کردارپرہلکی پھلکی تنقیدکرتے ہوئے فرمایاکہ دھرنوںکے موقعے پرمیڈیاکا کردار قابلِ ستائش نہیںتھا ۔اُنہوںنے کہا پرویزمشرف نے جب منتخب جمہوری حکومت کاتختہ اُلٹاتو کچھ صحافی اِس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے لیکن کچھ ایسے بھی تھے جنہوںنے اِس آئین شکنی پر پرویزمشرف کوسپریم کورٹ کی طرف سے ملنے والی آئینی ترمیم کاحق ملنے کی کھلی حمایت کی ۔انتہاپسندی اوردہشت گردی کے حوالے سے اُنہوںنے کہا”میڈیاکم ازکم دوسال کے لیے اپنی ریٹنگ بھول جائے ۔نیشنل ایکشن پلان پرجس طرح ملک کی تمام سیاسی جماعتیں متفق ہوئی ہیںاور مصلح افواج جس طرح اِس کاحصّہ ہیںاسی طرح میڈیاکو بھی اِس پلان کاحصّہ ہوناچاہیے ”۔وزیرِاعظم صاحب تودلی دردکے ساتھ یہ ساری باتیںکہہ رہے تھے لیکن ہمیںیقین ہے کہ میڈیاہاؤسز پراِس کا ”کَکھ”اثرنہیں ہونے والاکیونکہ ”ریٹنگ کاسوال ہے بابا”۔اگرمیڈیاہاؤسز اپنی ریٹنگ بھلاکر دہشت گردی کے خلاف حکومت اورفوج کی طرح ایک صفحے پر ہوجائیں تو اُن کا کاروبارٹھَپ ہوجائے گااور اینکراور ”اینکرنیاں”سڑکوں پر مونگ پھلی بیچتی نظرآئیںگی ۔اِس لیے کہے دیتے ہیںکہ وزیرِاعظم صاحب کواِس معاملے میںتو مایوسی ہی ہوگی اوربالآخر اُنہیںکہنا ہی پڑے گاکہ
وفا کیسی ،کہاں کا عشق ، جب سَر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگدل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو
ہمارے آزاداور بے باک میڈیاکاتو یہ عالم ہے کہ اُن کے نزدیک تو ”خبر”وہی ہوتی ہے جس میںریٹنگ ہو۔اگرریٹنگ ذوالفقارمرزا جیسے شخص کی وجہ سے بڑھتی ہے تومیڈیاحاضر اورقدم بوس ایک موقع ایسابھی تھاجب سارامیڈیا ذوالفقارمرزا کے پیچھے تھااور مرزاصاحب نخرے دکھا رہے تھے ۔آج میڈیابھی وہی اور ذوالفقارمرزا بھی وہی لیکن اب اُن کے”رُخ ِ روشن” کی ایک جھلک بھی ٹی وی سکرین پر نظرنہیں آتی ۔لال حویلی والے شیخ رشیدمیڈیاہاؤسز کی اسی لیے ”جِندجان”ہیں کہ اُن کی ”بے باک”گفتگوسے ریٹنگ بڑھتی ہے۔ایک زمانے میں ویناملک بھی نیوزچینلز کی محبوب ترین ہستی ہواکرتی تھی ۔یہ اُس زمانے کی بات ہے جب ویناملک انڈیامیں بیٹھ کرپاکستان کی بدنامی کاباعث بن رہی تھی ۔اُدھر ویناملک نے شادی کی اوراِدھر وہ نیوزچینلزکی خبروںسے آؤٹ ۔ویسے ہمارے نیوزچینلز اب ریٹنگ کے معاملے میںبھی خودکفیل ہوتے جارہے ہیں۔
چینلزپر اب ایسے اینکرزکی بھرمارہے جونہ صرف اپنے آپ کو ”بزرجمہر”سمجھتے ہیںبلکہ اپنی ”خوش اخلاقی”میں شیخ رشیدصاحب جیسوںسے بھی دوہاتھ آگے ہیں ۔آقا کاتو فرمان یہ ہے کہ جب کوئی بات کر رہاہو تو اُسے اپنی بات مکمل کرلینے دو ،درمیان میںمَت ٹوکولیکن ہمارے اینکرزتو مہمان کی بات مکمل ہونے سے پہلے کئی کئی باردرمیان میں”پھُدکتے”رہتے ہیںکیونکہ اُن کے خیال میںاِس سے ریٹنگ بڑھتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ناظرین اب ایسے اینکرزسے ”اوازار”ہوتے جارہے ہیںجو ”پھُدکنے”کے مرض میںمبتلاء ہیں ۔سب سے پہلے خبرنشر کرنے کاجنون بھی سَر چڑھ کربول رہاہے ۔ہر نیوزچینل ایک ہی وقت میں اپنی تمامتر توانائیوںکے ساتھ چیخ رہا ہوتاہے کہ سب سے پہلے خبر اُسی نے نشرکی ۔سانحہ پشاورہو یابلدیہ ٹاؤن ،خبریہ نہیںکہ کتنے گھروںمیں صفِ ماتم بچھی اورکتنے معصوموںکے سَروںسے مَوجِ خوں گزرگئی ،خبر یہ ہے کہ کِس چینل نے سب سے پہلے خبرنشرکی۔ ریٹنگ بڑھانے کاایک ذریعہ نیوزچینلز کے مزاحیہ پروگرام بھی ہیں۔یہ ایسے پروگرام ہوتے ہیںجن میںہزل گوئی ،پھکڑپَن اورذومعنی جملوںکی بھرمارکے ساتھ پَگڑیاں اچھالی جاتی ہیں۔ ایسے پروگراموںپر سٹیج فنکار قابض ہیںاور اِن میںوہی کچھ نظر آتاہے جو سٹیج ڈراموںمیںنظر آتاہے ،جسے شرفاء نے کبھی پسندنہیں کیا۔سٹیج ڈرامے توایک محدودطبقہ ہی پسند کرتاہے لیکن اب توالیکٹرانک میڈیاکی بدولت گھرگھرمیں سٹیج ڈرامے نظرآتے ہیں ۔تقریباََتمام نیوزچینلز اِس مرضِ بَدمیں مبتلاء ہوچکے ہیںلیکن کیاکریں ”ریٹنگ کاسوال ہے بابا”۔
َ پرویزمشرف نے اپنے دَورِآمریت میںپتہ نہیںکِس ”ایجنڈے”کے تحت الیکٹرانک میڈیاکو پروان چڑھایااور پھروہ اتنا”چڑھ” گیاکہ خود پرویزمشرف کے قابومیں بھی نہ رہا۔ جمہوری ملکوںمیں میڈیاآزاد ہی ہواکرتاہے اوربے باک بھی لیکن جتنی آزادی اور بے باکی ہمارے ہاںپائی جاتی ہے اُتنی شایددُنیاکے کسی بھی جمہوری ملک میںنہیں ہوگی ۔آج وزیرِاعظم صاحب کہہ رہے ہیںکہ میڈیااپنا ”ضابطۂ اخلاق”خود تیارکرے لیکن کیاضابطۂ اخلاق کے بغیرہی میڈیا ”سَرپَٹ” ہے؟۔
اگرایسا ہی ہے توپھر پیمرانامی ایک ادارہ بھی ہواکرتاتھا ،اُس کا کیابنا؟۔ ہمارے ٹھنڈے ٹھار وزیرِاطلاعات جناب پرویزرشید تواپنی بے بسی کاہروقت روناروتے رہتے ہیں اوریہ بھی غالباََاُنہی کافرمان ہے کہ پیمراکا توکیبل آپریٹرزپر بھی زور نہیںچلتا ،میڈیاہاؤسز پرکیا خاک چلے گا ۔ہم سمجھتے ہیںکہ میڈیاہاؤسز کے لیے ضابطۂ اخلاق بھی حکومت کوخودہی تیارکرنا پڑے گا اوراُس پر عمل درآمدکے لیے پیمراکو مضبوط اورفعال کرنے کی ذمہ داری بھی حکومت کی ہی ہے کیونکہ نیوزچینلز مالکان تومحض کاروبار کررہے ہیںاوراُنہیں اپناکاروبار چمکانے کے لیے قومی وملّی یکجہتی نہیں، ریٹنگ کی ضرورت ہے۔
تحریر : پروفیسر رفعت مظہر