لاہور (ویب ڈیسک) بیوروکریسی نے شہباز شریف کے حکم پر چین سے پونے دو ارب ڈالرز کا قرضہ لے کر صرف چھبیس کلومیٹر ٹرین بنا دی‘ لیکن جنوب کے لیے کہتے ہیں‘ پیسے نہیں ہیں۔ اس دوران میرا سوال تھا :پنجاب میں ایک نیا کھیل شروع ہوگیا ہے‘روز افسران تعینات ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔ نامور کالم نگار رؤف ج کلاسرا اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔اور چوبیس گھنٹوں بعد جب وہ مبارکبادیں وصول کرچکے ہوتے ہیں تو لاہور سے حکم جاری ہوتا ہے ‘جناب واپس آجائیں ‘آپ کی جگہ کوئی اور لگ گیا ہے۔میںنے آر پی او سہیل تاجک کی مثال دی کہ ایک اچھا افسر بہاولپور میں لگا تھا‘ اسے راتوں رات ہٹا دیا گیا۔ کیا آپ کے نوٹس میں یہ ہوتا ہے یا آپ کو بھی ہماری طرح خبروں سے پتا چلتا ہے؟ اس پر ایک اور سوال ان سے کیا گیا پولیس ریفامز کا تو اللہ ہی حافظ ہے‘ کیونکہ آئی جی درانی نے بھی حکومت کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا تھا؛ اگر آپ لوگوں نے بھی شہباز شریف دور کی طرح پنجاب چلانا ہے‘ تو پھر اتنی امیدیں دلانے کی کیا ضرورت تھی؟ بزدار صاحب بولے: انہوں نے پوسٹنگ سے پہلے افسران کے انٹرویوز خود کئے تھے۔ سہیل تاجک کو وہ ذاتی طور پرجانتے ہیں‘وہ ڈیرہ غازی خان کے آر پی او تھے اور ان کی کارگردگی اچھی تھی‘ تاہم بہاولپور سے ہٹانے کی کچھ وجوہات تھیں۔انہیں وہاںمسائل کا سامنا ہوتا‘ اس لیے انہیں ہٹایا ۔ ناصر درانی کے استعفیٰ پر بولے: جو خود چھوڑ کر جانا چاہے‘ اسے کون روکے۔ یہ جواب کچھ حیران کرگیا‘ کیونکہ اسی ناصر درانی کا نام بیچ کر پی ٹی آئی نے پنجاب میں الیکشن جیتا تھا اور اب درانی کی ضرورت نہیں تھی۔ مطلب اقتدار مل گیا ‘اب کوئی رہے یا جائے ہمارا سر درد نہیں ۔ میں نے کہا: بزدار صاحب جیسے آپ پنجاب میں کررہے ہیں کہ دن کو آپ کسی کو آر پی او‘ کمشنر‘ ڈپٹی کمشنر یا ڈی پی او کو لگاتے ہیں اور رات کو آرڈر بدل دیے جاتے ہیں۔ آپ کو کیسے لگتا؛ اگر عمران خان نے آپ کے ساتھ یہی کیا ہوتا ؟خان نے آپ کوبنی گالا بلایا ‘ ایسی پوسٹ دی‘ جو آپ نے خواب میں بھی نہیں دیکھی تھی۔ آپ نے باہر نکل کر خاندان‘ دوستوں یاروں اور ساتھی ایم پی اے کو فون کر کے بتایا میں پنجاب کا وزیراعلیٰ رہا ہوں۔ آپ نے یہ سوچنا شروع کردیا کہ لوگوں کی خدمت کرنی ہے‘عام انسان کی زندگی بدلنی ہے۔ آپ رات دیر تک یہ پلاننگ کرتے سوتے اور صبح آپ ٹی وی کھولتے تو بریکنگ خبر چل رہی ہوتی کہ عمران خان نے آپ کی جگہ کسی اور کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیا۔ آپ کو کیسا محسوس ہوتا؟بزدار صاحب چند لمحے گہری سوچ میں ڈوبے رہے۔ آخر میری طرف دیکھا اور بولے: یہ تو پھر عمران خان کی مرضی تھی ! سب ہنس پڑے۔ تو وہی سوال ۔کیا تین ماہ بعد بزدار بدل گیا ہے‘ جس کی پیش گوئی وزیراعظم عمران خان نے کی تھی ؟کل پنجاب حکومت کے سرکاری افسر کا میسج تھا: یار یہ تصویر دیکھو‘ یہ کبھی شہباز شریف کا پرسنل سٹاف افسر تھا‘ جسے اب گورنر سرور نے بزدار صاحب کے ساتھ لگوایا ہوا ہے۔ وہ افسر ایسے ایکٹنگ کرتا ہے‘ جیسے وہی سب کا باس ہو ۔ سب اس سے تنگ ہیں ۔ میں نے کہا :بزدار صاحب اسے ہٹا دیں‘ اگر وہ تنگ ہیں ؟ کہنے لگے: کیا کریں بزدار صاحب مروت کا شکار ہیں ۔میں نے کہا: اگر بزدار صاحب اپنے سٹاف کا افسر بھی گورنر سرور کی ناراضی کے خوف سے نہیں بدل سکتے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں خود کتنے تبدیل ہوسکیں گے‘ جس کا دعویٰ عمران خان نے کر رکھا ہے۔ اس نے کہا تو پھر کیا کریں؟ میں نے کہا: بزدار صاحب کو میل گبسن کی فلم Brave Heart دکھائیں اور اس کا وہ سین‘ جس میں انگلینڈ کا بادشاہ ایڈورڈ اپنے بیٹے میں بادشاہوں والی خوبیاں نہ پا کر اپنے بیٹے کے نالائق مشیر کو محل کی کھڑکی سے نیچے پھینک کر شدید مایوسی کے عالم میں اپنے بیٹے پر چلاتا ہے:One day you will be King, atleast try to act like one ”ایک دن تم نے بادشاہ بننا ہے۔ اور کچھ نہیں تو بادشاہوںوالی اداکاری ہی کرلو‘‘