اسلام آباد (ویب ڈیسک) سینئر صحافی رﺅف کلاسرا کا کہنا ہے کہ بینظیر اور نواز شریف نے صحافیوں کے اپنے اپنے گروہ تشکیل دیے تھے اور نواز شریف تو صرف ان لوگوں کو خبر دیتے تھے جو ان کے قریب ہوتے تھے ۔ نواز شریف کسی صحافی کو اپنے قریب کرنے سے پہلے اسے لفافہ دے کر ’ کانا ‘ کرتے تھے ۔
صحافیوں کو دبانے کا کام تو جنرل ایوب سے شروع ہوا تھا۔ بھٹو نے صحافیوں کو قید میں ڈالا ، جنرل ضیا ایک قدم آگے نکل گئے، ناصر زیدی جیسے صحافیوں کو کوڑے مارے گئے اور شاہی قلعے میں قید کیا جہاں ان کی جوانیاں ڈھل گئیں، بچے رل گئے۔صحافی جس قوم کیلئے لڑ رہے تھے وہ بھٹو کو عظیم قائد اور جنرل ضیا کو مرد مومن مرد حق کا درجہ دے کر خوش تھی ۔بینظیر بھٹو کو دوسرے حکومت میں سمجھ آگئی تھی کہ صحافیوں کا اپنا گروہ ہونا چاہیے جو ان کی بات سنتا اور سمجھتا ہو، زرداری نے اپنا ناشتہ گروپ تشکیل دے دیا۔ نواز شریف کاروباری انداز میں ڈیل کرنے کے قائل تھے۔ لاہور کے ایک صحافی نے بتایا کہ وہ نواز شریف سے لفافہ لیتے تھے کیونکہ اس کے بغیر وہ بھروسہ نہیں کرتے تھے ۔ جب تک وہ صحافی کو لفافے سے ’ کانا‘ نہ کرلیتے اسے قریب نہ آنے دیتے۔ خبر لینے کیلئے ضروری تھا کہ شریفوں کے قریب ہوا جائے، قریب ہونے کیلئے ضروری تھا کہ حلف وفاداری لیا جائے اور ان کا حلف وفاداری لفافہ تھا تاکہ وہ کل کو ان کے خلاف نہ لکھ سکے، یوں چند ہزار روپوں میں سب معاملات طے ہوجاتے تھے۔
بعد میں نواز شریف کے اس گروپ کو ہیلی کاپٹر گروپ کا نام دیا گیا ۔ جہاں صاحب نے جانا ہے وہاں ہیلی کاپٹر میں چند صحافی اور کالم نگار بھی جائیں گے جو واپسی پر اپنے کالموں میں ان کی کرامات اور جلالی اندز کو عوام کے سامنے پیش کریں گے۔ ہر جھوٹ کو سچ اور ہر نکمے اور کرپٹ لیڈر کو نیلسن منڈیلا اور چارلس ڈیگال بنا کر پیش کیا گیا۔ جو ایوریج قسم کی سوچ بھی نہیں رکھتا اسے انقلابی اور عظیم لیڈر کے طور پر پیش کیا یوں پاکستان میں درمیانے درجے کی قیادت اوپر ابھری جسے عوام سے زیادہ ان صحافیوں نے لیڈر کا درجہ دے رکھا تھا۔