لاہور (ویب ڈیسک) وہی وزیر اعظم عمران خان کے دفتر کا ایک بڑا ہال اور دو درجن تابڑ توڑ سوالات کرتے صحافی۔عمران خان زرداری اور شریف خاندان پر برس رہے تھے۔ میں نے غور سے دیکھا تو وزیر اعظم کے ارد گرد اوریجنل پی ٹی آئی کا ایک بھی وزیر نظر نہ آیا۔ نامور کالم نگار رؤف کلاسرا اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب نئی پی ٹی آئی تھی جو خان کے ارد گرد بیٹھی تھی۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہر صحافی کو عمران خان سے مرضی کا سوال کرنے کی اجازت ہے۔ کوئی کچھ بھی پوچھ سکتا ہے اور عمران خان اسے جواب دیتے ہیں۔ نواز شریف جب تک وزیر اعظم رہے وہ کبھی صحافیوں سے نہ ملے اور اگر ملے بھی تو اپنی پسند کے چند گنے چنے صحافیوں سے۔ وہ ملاقاتیں سوال و جواب یا حکومت کی کارکردگی سے زیادہ ”مشورے‘‘ لینے کے لیے کی جاتی تھیں۔ حکمران صحافی سے جب کوئی مشورہ مانگ رہے ہوتے ہیں تو وہ اپنے سے زیادہ سیانا یا قابل نہیں سمجھتے بلکہ ہم جیسے لوئر مڈل یا مڈل کلاس سے آنے والے صحافیوں کے سامنے انہیں اہمیت دینے کی اداکاری کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم پھول کر کپا ہو جاتے ہیں کہ دیکھیں ملک کا وزیر اعظم یا اپوزیشن لیڈر مشورے مانگ رہا ہے۔ اور ہم پوری سنجیدگی سے وزیراعظم یا سیاستدانوں کو مشورے دے رہے ہوتے ہیں۔ وہ اندر ہی اندر قہقہے لگاتے ہوں گے۔نواز شریف اور شہباز شریف کی ایک بات کی داد دیتا ہوں کہ دونوں بھائی اس وقت صحافیوں سے گھل مل جائیں گے‘ ان سے مذاق کریں گے، جگتیں ماریں گے اور قہقہے بھی لگیں گے، حال احوال پوچھا جائے گا اور صحافیوں کی صحت کی بڑی فکر مندی دکھائی جائے گی جب وہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں۔ اس وقت وہ آپ کو چٹکلے بھی سنائیں گے۔ لندن میں وہ صحافیوں کی پلیٹوں میں کھانا بھی ڈالتے تھے۔ ضیاء الدین صاحب، ارشد شریف اس کے گواہ ہیں۔ میں شرط لگا سکتا ہوں کہ وزیر اعظم بننے کے بعد ایک دفعہ بھی انہوں نے ضیاء الدین یا ارشد شریف کو نہیں بلایا ہو گا کیونکہ یہ سب کچھ انہوں نے اپوزیشن کے دنوں کے لیے بچا کر رکھا ہوا ہے۔عمران خان صاحب وزیر اعظم بننے کے بعد شروع ہی سے اسی لائن پر چل رہے ہیں۔ ان کے گرد ان کی جو پہلی میڈیا ٹیم تھی اس نے بڑی حد تک انہیں میڈیا سے دور کیا۔ وہ ٹیم یہ ایجنڈا لے کر سامنے آئی کہ باقی معاملات بعد میں دیکھیں گے‘ پہلے ذرا میڈیا کو سیدھا کر لیں۔ عمران خان نے بیس بائیس سال تک جو میڈیا ٹرائل فیس کیا‘ اس کے اثرات شاید وزیر اعظم بننے کے بعد مزید نمایاں ہو گئے ہیں۔ انہیں لگتا ہے‘ سارے میڈیا کو شریف خاندان نے خرید رکھا تھا‘ میڈیا نے ان کی ذات پر حملے کیے‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میڈیا بکا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تین مئی کو‘ جب دنیا بھر میں ورلڈ پریس فریڈم ڈے تھا‘ عمران خان نے میڈیا کے خلاف ٹویٹ کیا‘ جو ان کے خیال میں دراصل فیک نیوز کے خلاف تھا۔ حالانکہ یہی وہ میڈیا تھا جس کی مدد سے وہ وزیر اعظم بنے تھے کیونکہ میڈیا نے ہی شریف خاندان اور زرداری کی حکومتوں کو ایکسپوز کیا‘ جس کی وجہ سے ان کو اپنی جگہ بنانے میں آسانی ہوئی تھی۔ لیکن عمران خان ان برسوں میں جس میڈیا ٹرائل کا سامنا کرتے آئے ہیں‘ اس کے اثرات وقت گزرنے کے ساتھ گہرے ہوئے ہیں‘ کم نہیں ہوئے۔ ان کا ماننا ہے کہ شریف خاندان‘ جو برسوں سے پاکستان پر حکمرانی کرتا آیا ہے‘ اب تک ہر محکمے میں اتنا اثر و رسوخ بنا چکا ہے کہ اس کے وفادار ہر جگہ موجود ہیں۔عمران خان صاحب کی کتاب پڑھیں تو بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کے اور نواز شریف کے درمیان یہ سب سیاسی نہیں بلکہ ذاتی لڑائی ہے‘ اور عمران خان اس ذاتی لڑائی کا ذمہ دار شریف خاندان کو سمجھتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب میں جمائمہ خان سے شادی کی ناکامی کا ذمہ دار اپنی سیاسی اور اقتدار کی خواہشات کو نہیں ٹھہراتے بلکہ وہ اس کا پورا پورا الزام شریف خاندان کو دیتے ہیں‘جبکہ شریف خاندان سے پوچھیں تو وہ عمران خان کو سیاسی حملوں کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ مطلب وہی کہ پہلے انڈہ یا مرغی۔ پہلے عمران خان نے شریف خاندان پر سیاسی حملے شروع کیے یا پھر شریفوں نے ان کی ذات کو ٹارگٹ بنایا۔ عمران خان صاحب کو وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں سنتے ہوئے احساس ہو رہا تھا کہ بہرحال جس نے بھی پہل کی‘ شریفوں اور عمران خان کے درمیان یہ جنگ اب ہرگز سیاسی نہیں رہی۔ یہ اب ذاتی لڑائی سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر دشمنی کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ عمران خان انہیں اپنا دشمن اس لیے سمجھتے ہیں کہ ان کے خیال میں شریفوں نے ملک لوٹا‘ اس لیے وہ ان کے ساتھ نہ این آر او کریں گے‘ نہ ہی جھکیں گے۔اسی لیے جب بھی عمران خان کے سامنے شریفوں کا ذکر یا سوال کیا جاتا ہے تو ان کے چہرے پر پھیلتے ہوئے غصے کو دیکھ کر مجھے حیرت نہیں ہوتی۔ یہ بالکل وہی صورتحال ہے جب کبھی نواز شریف کہتے تھے کہ پیپلز پارٹی کا نام سن کر ان کا لہو کھولنے لگتا ہے۔ اب یہی کچھ مجھے تب محسوس ہوتا ہے جب کوئی صحافی عمران خان سے شریف خاندان کے بارے میں سوال پوچھتا ہے۔عمران خان صاحب کو احساس ہے کہ وہ جتنا آگے چلے گئے ہیں‘ وہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ اگرچہ کہا جاتا ہے سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی‘ کیونکہ یہی عمران خان لندن میں نواز شریف سے جا کر ملتے بھی تھے اور جنرل مشرف کے خلاف مشترکہ الائنس کی باتیں بھی ہوتی تھیں‘ حالانکہ اس وقت تک طلاق ہو چکی تھی اور وہ اس کا سارا ملبہ شریف خاندان پر ڈالتے تھے۔ اس کے باوجود وہ شریفوں سے ملاقاتیں کر رہے تھے اور وہ سیاست کو اپنے ذاتی اختلافات اور غصہ پر ترجیح دے رہے تھے۔ انہیں لگ رہا تھا کہ اگر وہ ذاتیات میں پھنس گئے تو سیاست سے آئوٹ ہو جائیں گے لہٰذا وہ اقتدار تک پہنچنے کے لیے اپنے بدترین دشمنوں کے ساتھ بھی بیٹھنے کو تیار تھے۔ اگرچہ یہ اور کہانی ہے کہ انہی نواز شریف نے پہلے عمران خان اور چند قوم پرستوں کو ساتھ ملا کر کہا تھا کہ وہ دو ہزار آٹھ کے الیکشن کا بائیکاٹ کریں گے۔ عمران خان اس کھیل میں نئے تھے لہٰذا اس چکر میں آ گئے جبکہ شریفوں نے جا کر اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرا کے پنجاب میں اپنی حکومت بنا لی۔اس دن عمران خان کو پھر احساس ہوا کہ سیاست تو بے رحم ہوتی ہے‘ یہاں وہی سکندر ٹھہرتا ہے جو عوام سے لے کر اپنے ساتھیوں اور سیاسی مخالفوں تک کو بھی بری طرح استعمال کر کے اقتدار میں پہنچ جائے۔ پھر عمران خان نے وہی کھیل کھیلنا شروع کیا جو شریف اور زرداری کھیلتے آئے تھے کہ سیاست میں کسی اصول، وعدے اور اخلاقیات کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ لوگ آج تک ویسے ہی بے چارے میکاولی کو بدنام کیے ہوئے ہیں کہ وہ شہزادے کو گر سکھا رہا تھا کہ تم نے کیسے بے رحم حکمران بننا ہے۔ میکاولی تو شہزادے کو وہی کچھ سکھا رہا تھا جو وہ سیکھنا چاہ رہا تھا یا جو جذبات اور خیالات انسان کے اندر موجود تھے۔ اب بتائیں نواز شریف کو میکاولی روزانہ حکومت کے اسرار و رموز سکھاتا تھا یا زرداری کا استاد میکاولی تھا؟ محض اس کی کتاب پرنس پڑھ لینے سے ہی کوئی حکمران نہیں بن جاتا۔ اگر ایسا ہوتا تو چھ سو سال پرانی کتاب دی پرنس پڑھ کر لاکھوں لوگ حکمران بن چکے ہوتے۔ کیا زرداری اور شریفوں کی کلاس میکاولی لیتا رہا ہے کہ کیسے اپنے مخالفوں کو استعمال کرنا ہے اور ان کی سیاسی لاشوں پر سے گزرتے اقتدار تک پہنچنا ہے؟ یا پھر عمران خان کو میکاولی بتاتا رہا ہے کیسے اپوزیشن کے دنوں میں کیے گئے تمام وعدوں اور دعووں سے مکر جانا اور وہ سب کام کرنے ہیں جن پر وہ اپوزیشن کے دنوں میں تنقید کرتے تھے۔ جن سیاستدانوں کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہنا ہے انہی کا اقتدار کیلئے دفاع بھی کرنا ہے۔ ہر بندے کے اندر ایک عدد چھوٹا بڑا میکاولی چھپا ہوتا ہے۔ میکاولی کہیں اور نہ تلاش کریں اپنے اندر تلاش کریں۔ جو بھی اقتدار کے بے رحم کھیل کا حصہ بنے گا یاد رکھیں اس کے اندر میکاولی کی روح پیدا ہو جائے گی۔ میکاولی ایک کیفیت کا نام ہے۔ انسان کا نہیں۔ میکاولی کو تو مرے صدیاں گزر گئیں‘ لیکن اس کی روح آج بھی ہر اس انسان میں موجود ہے جو اپنے جیسے دوسروں انسانوں پر حکومت کرنے کا خواہاں ہے‘ چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے!