لاہور (ویب ڈیسک) دنیا بھر میں فارن آفس کو کسی بھی ملک کی فرسٹ لائن آف ڈیفنس سمجھا جاتا ہے۔ کسی بھی معاملے پر فارن آفس نے ہی دنیا میں حمایت حاصل کرنا ہوتی ہے اور اپنے ملک کو سچا ثابت کرنا ہوتا ہے۔ بھارت کے سفارت کاروں کو دنیا بھر میں زیادہ قابل سمجھا جاتا ہے نامور کالم نگار رؤف کلاسرا اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ہندوستان کے مفادات کا تحفظ پہلے اور اپنے مفادات کا بعد میں کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ بالکل الٹا ہے۔ میرا خیال تھا کہ بھارت کے ساتھ اگر سفارت کاری کا مقابلہ کرنا ہے تو آپ کو فارن آفس میں مارشل ریس کے لوگوں کو بھرتی نہیں کرنا چاہیے۔ آپ کو ان علاقوں سے لوگ لانے چاہئیں جو جارحانہ مزاج کے نہ ہوں۔ مجھے اکثر یہ سننا پڑتا ہے کہ سرائیکی بہادر نہیں ہیں یا وہ منافق ہیں۔ سرائیکی ذومعنی جملے بہت استعمال کرتے ہیں ‘ بات کچھ کرتے ہیں مطلب ان کا کچھ اور ہوتا ہے‘ کام کرتے ہیں اور نہ ہی ‘ناں ‘کرتے ہیں۔ میں انہیں ہمیشہ سمجھاتا ہوں کہ یہ سب رویے ڈپلومیسی کہلاتے ہیں۔ سرائیکی علاقے صدیوں سے بیرونی حملہ آوروں کا نشانہ ہیں‘ لہٰذا زندہ رہنے کی کوشش میں انہیں اپنے رویوں کو تبدیل کرنا پڑا۔ منافقت کہیں یا زندہ رہنے کا فن ۔ ڈپلومیسی اور ڈپلومیٹک رویے ان کی فطرت میں شامل ہوتے گئے۔ وہ جانتے بوجھتے انکار نہیں کرتے کہ اگلے کا دل دکھے گا۔ شاید کوئی چانس نکل آئے اور اگلے کا کام ہوجائے۔ انکار نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ آپ سے دھوکہ کررہا ہے۔
وہ مروت کا شکار ہے کہ کسی کو سیدھا انکار کیسے کرے۔ اسی لیے جب حنا ربانی کھر کو وزیرخارجہ بنایا گیا تو اس نے بہتر پرفارم کیا ۔ بھارت میں بھی حنا ربانی کھر کو بہت سراہا گیا تھا۔ اسی طرح ملتان سے فارن آفس کے افسر جلیل عباس جیلانی جب بھارت میں تعینات ہوئے تو ان سے بھارتی زِچ تھے اور انہیں وہاںسے باقاعدہ نکالا گیا کہ وہ ہاکش ہیں۔ وجہ یہ تھی کہ وہ بھارت کی ان روایتی چالاکیوں کو سمجھ سکتے تھے ‘ یہ سمجھ بوجھ ڈپلومیسی کے لیے ضروری ہوتی ہے۔تاہم داد دیتا ہوں ملتانی پیر شاہ محمود قریشی کو جنہوں نے میرے اس تھیس کا بیڑا غرق کر دیا کہ سرائیکی علاقوں کے لوگ وزارت خارجہ کو بہتر چلا سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب پیپلز پارٹی دور میں امریکی ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ اٹھا تو شاہ محمود قریشی نے اس پر ایک سٹینڈ لے لیا تھا۔ مان لیتے ہیں کہ سٹینڈ درست تھا‘ لیکن سفارت کاری بہت اہم اور سنجیدہ کام ہے۔ اس کے لیے میرے جیسے جذباتی اور جارحانہ مزاج کے انسان نہیں چل سکتے۔ میں نے ایک دفعہ ایک ریٹائرڈ فوجی جنرل سے ایسا ہی ایک سوال پوچھا تھا ‘جو اس اجلاس میں موجود تھے‘ جس میں زرداری صاحب نے ریمنڈ ڈیوس کو ڈسکس کرنا تھا ۔ میں نے ان جنرل سے جو اہم پوسٹ سے ریٹائر ہوئے تھے‘ گلہ کیا کہ آپ نے ہمارے ملتانی پیر کو مروا دیا ‘آپ کو دیکھ کر سٹینڈ لیا اور آپ لوگوں نے امریکہ سے براہ راست ڈیل کر لی اور شاہ جی بھٹو کیا بنتے وہ تو وزارت سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور دوبارہ وزیرخارجہ بننے کے لیے دس سال کا کشٹ کاٹنا پڑ ا۔ وہ جنرل بولے: ہمارا کیا قصور؟ اس اجلاس میں ملتانی پیر کے بولنے سے پہلے آئی ایس آئی چیف کی باری تھی اور انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ ملتانی پیر نے وہی لائن لے لی۔ بعد میں حالات بدل گئے تو سب کو بدلنا پڑا۔ ہمارے ملتانی پیر نے یہیں پر بس نہ کی‘ بلکہ انہیں لگا تاشقند معاہدے کو جس طرح بھٹو نے ایوب خان کے خلاف استعمال کیا تھا اور پانچ سال بعد وہ ایوب خان کو گرا کر وزیراعظم بن گئے ‘ وہی موقع ان کے پاس آگیا ہے کہ اسی بھٹو کے داماد کو گرا کو وہ وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ دنیا کا کوئی وزیرخارجہ ایسا نہیں کرتا ایک دن وہ استعفیٰ دے اور اگلے دن ٹی وی چینلز پر اینکرز کو دھواں دھار انٹرویوز دینا شروع کردے۔ یہ کام ہمارے ملتانی پیر نے کیا ۔ اب ملتانی پیر نے ایک بڑا چھکا مارا ہے اور بال پاکستان کی باؤنڈی سے بھی باہر ہندوستان میں جا گری ہے۔
جب پاکستانی سیاسی اور فوجی قیادت نے ایک بہترین کام کرتے ہوئے کرتارپور بارڈر کھولنے کا اعلان کیا تو بھارت میں تھر تھلی مچ گئی۔ میں نے پہلی دفعہ بھارتی وزیراعظم مودی اور سشما سوراج کو اس بری حالت میں دیکھا‘ ورنہ کئی برسوں سے وہ پاکستان کے ساتھ اپنی مرضی کا کھیل کھیل رہے تھے۔ بھارت کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے۔ ہندوستان اگر کرتار پور سے انکار کرتا ہے تو سکھ ان کے خلاف ہوتے ہیں اور اگر وہ ساتھ دیتا ہے تو سارا کریڈٹ پاکستان کو ملتا ہے اور کانگریس بھارتی پنجاب میں سدھو کے ذریعے اگلے سال الیکشن جیت جائے گی۔ بھارت میں بھی بہت سارے ایسے لوگوں‘ جو پاکستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات چاہتے ہیں‘ کو موقع مل گیا کہ وہ اس پروپیگنڈا کا توڑ کریں کہ پاکستان امن نہیں چاہتا۔ ان کے بعض بڑے صحافیوں نے ٹوئیٹ کر کے دلی سرکار پر تنقید شروع کر دی کہ آپ اس امن کے عمل پر سوالات کیوں اٹھا رہے ہیں؟ بھارتی ٹی وی چینلز پر بحث کا رخ بدل گیا ۔ پاکستان کا بہتر امیج ہندوستان میں بھی ابھرنے لگا اور اسی وقت ہمارے ملتانی پیر کو موقع ملا گیا ۔ وہ کئی دنوں سے وزیراعلیٰ پنجاب نہ بننے کی وجہ سے چپ اور ڈپریسڈ تھے۔ سمجھ نہیں آرہی تھی وہ ایسا کون سا کام کریں کہ ہر طرف بَلے بَلے ہوجائے۔ ہر طرف عمران خان کی باتیں ہورہی تھیں کہ وہ بھارت کے ساتھ امن قائم کرسکتے ہیں۔ہمارے ملتانی پیر زیادہ دیر انتظار نہ کر سکے اور انہوںنے وہ تاریخی تقریر کر ڈالی جس نے کئی ماہ کی ان کوششوں پر پانی پھیر دیا جو پاکستان کر رہا تھا ۔ جو پالیسی بڑی سوچ سمجھ کر فوج اور سیاسی لیڈروں نے بنائی تھی کہ بھارت کے ساتھ کرتارپور کھول کر ہندوستان کو بیک فٹ پر لے جایا جائے اور بی جے پی کو امن کا دشمن سمجھا جائے‘ اس پر پانی پھیر دیا۔ شاہ جی نے کھلے عام فرمایا: جناب یہ تھی عمران خان کی ”گگلی‘‘۔ یعنی جناب یہ تھی ہماری چالاکی یا دوسرے لفظوں میں ہماری سازش کہ ہم نے کرتارپور کھول دیا ۔ مطلب ہم نے سکھ کارڈ کھیل دیا تھا ۔ ایک لمحے میں دلی سرکار جو ڈپریشن میں لیٹی ہوئی تھی ‘اٹھ کھڑی ہوئی۔ سارا بھارتی میڈیا دوبارہ پاکستان پر پل پڑا: دیکھا ‘ہم ناں کہتے تھے کرتارپور ایک سازش ہے‘ سکھوں کو ہندوستان کے خلاف کرنے کی۔ مودی جی کو اگلا الیکشن لڑنے کے لیے بارود چاہیے تھا اور ہماری ملتانی پیر نے مہربانی فرما کر ٹنوں کے حساب سے مودی کو فراہم کیا ہے۔ ملتانی پیر کی اس ”گگلی ‘‘کے بعد مودی سرکار پریشر سے نکل آئی ہے۔ ہمارے ملتانی پیر نے دس برس بعد بھی سفارت کاری نہ سیکھی۔ زرداری دور میں جہاں ریمنڈ ڈیوس سے شروع ہوئے تھے‘ آج عمران خان دور میں بھی وہیں کھڑے ہوئے ہیں۔ آسکر وائلڈ نے کیا خوبصورت بات کہی تھی