تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
ہندوستان کے لئے پاکستان کا وجود کانٹے کی طرح ہے۔جس سے ان کو کسی پل چین نہیں ہے ۔پاکستان کو موقعے موقعے سے ہندوستان نے نقصان پہنچایا ۔وہ چاہے 1948کا ابتدائی دور ہو یا آزادی کے دوسرے عشرے کا آخر 1965 کا دور ہو ، یا 1971کا زمانہ ہو جس میں اس نے ہمارے وجود کے ٹکڑے کر کے پوری امتِ مسلمہ کو لہو لہان کر دیا تھا۔ہندوستان کو آج تکلیف اس کی معاشی راہ گذر سے ہے ۔معاشی کوریڈور کے بننے سے ہندوستان کو تو کوئی بڑا نقصان سوائے اس کی دادا گیری کی سوچ کی معدومت کے کچھ نہ ہوگا۔ مگر پاکستان ترقی کی منازل کو چھو لے گا۔ایک زمانہ تھا کہ افغانستان سے ہماری لاکھ مخالفتوں کے با وجود ہمارے وجود کے لئے خطرہ نہیں تھا۔ مگر آج ہندوستان کے افغانستان میں اثر و نفوز کے وجہ سے ہمارے وجود کو خطرات لاحق ہیں۔عبداللہ عبد اللہ تو پاکستان کی دشمنی میں ہندوستان کے شانہ بشانہ کھڑے دکھائی دیتے ہیں اور حامد کرزئی پاکستان کا نمک خوار رہنے کے باوجودہندوستان کے بڑے حمائتیوں میںسے ہیں۔جبکہ موجودہ صدر اشرف غنی جن کو ہندوستان نواز حامد کر زیء اور عبد اللہ عبد اللہ ناکام کرنا چاہتے ہیں۔وہ ان کے مقابلے میں پاکستان کے دوست تو ہیں۔ مگر ان دونوں افراد کے لوگ ان کو سکون سے کام نہیں کرنے دے رہے ہیں اورانہیں پاکستان کے خلاف بیان بازی پر مجبور کرتے رہتے ہیں۔یہ دونوں افغانستان سے پاکستان کے خلاف مسلسل جارحیت میں ہندوستان کے معاون بھی بنے ہوئے ہیں۔
17ستمبر 2015 کی صبح صادق تقریباََ صبح 5 بجے ”را” ،”خاد” اور ٹی ٹی پی کے 13 دہشت گردوں نے جو پاکستان ایئر فورس کی وردیوں میں ملبوس تھے اورجو بغیر نمبر پلیٹ کی دو گاڑیوں میں سوار ہوکر ایئر بیس کے مین راستوں سے بیس کے اندر داخل ہوئے تھے۔سیکورٹی اداروں کی وردیوں میں ملبوس ہونے کی وجہ سے انہیں داخلے کے راستوں پر روکا نہیں گیا ۔جس کی وجہ سے بڈھ بیر(جو 1962 میں یو ٹو( U-2)کے حوالے سے شہرت پا چکا تھا)کے ماضی کے ائیر پورٹ پر جہاں اب ایئر فورس کے لوگوں کا رہائشی علاقہ ہے۔دو جانب سے حملہ کر کے ان ظالموں نے 29 بے گناہوں کو شہیدکر دیا۔ جس میں 23 پی ایف کے ملازمین تھے جبکہ 3 پی ایف کے سویلین ملازمین تھے ان کے علاوہ ایک کیپٹن سمیت تین بری فوج کے سپاہی اور آفیسر تھے۔ان شہیدوں میںایک کیپٹن اسفند یار بخاری جن کی عمر 27 سا ل تھی۔ جن کی شادی تین ماہ بعد ہونے والی تھی۔ان کے علاوہ ایک آرمی کے میجر حسیب سمیت 29 افراد زخمی بھی ہوئے۔ان دہشت گردوں کا نشانہ بڈھ بیر کا ہوائی مستقر بھی تھا۔ کیونکہ ٹی ٹی پُی کے لوگ یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ اس ایئر بیس سے ان کے لوگوں کو نشانہ بھی بنا جاتا رہا ہے۔
ہندوستان دہشت گردوں کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان کی سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔یہ حملہ بالکل 16دسمبر 2014 کے آرمی پبلک اسکول پر گذشتہ حملے کے انداز پر کیا گیا جس میں ان بزدلوں کے ہاتھوں 132معصوم طالبعلم شہید کر دیئے گئے تھے۔بچوں کے اسکول پر حملے نے بھی ان کے اسلام اور ان کی بہادری کا پول کھول کے رکھ دیاتھا۔ قریباََ 8 دہشت گردوں نے بڈھ بیر کی مسجد جہاں فجر کی نماز کی تیاریاں ہو رہی تھیںپرحملہ کر کے 23 نمازیوں کو مسجد کے اندر ہی شہید کر دیا۔ جس کی ذمہ داری تحریک طالبان کے محمد خراسانی نے قبول بھی کر لی۔ہمارا سوال یہ ہے کہ طالبان کی قیادت دنیا کو بتائے کہ کہاں سے لائے ہوئے اسلام کے وہ پیرو کار ہیں؟جو نمازیوں کو مسجدوں میں شہید کر کے اپنے آپکو اعلیٰ درجے کا مسلمان ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں…..یہ آقائے نامدار حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا اسلام تو ہر گز نہیںہے۔
کیاطالبان ہندووں اور بودھوں کا جہاد کر رہے ہیں؟؟؟ اسلام تو کسی بھی بے گناہ کونا جائز قتل کرنے کو خانہ کعبہ ڈھا دینے کی بات کرتا ہے اور بے گناہ مسلمان کے قتل اور وہ بھی مساجد میں گھس کر نماز کے دوران،پر تو سنگین سزا کا اعلان کرتا ہے۔را کے ایجنٹ ان طالبان کو چاہئے کہ اب اسلام کا چولا اتار کر اپنے اصل روپ میں آجائیں ۔تاکہ مسلمان ان کا بھیانک چہرہ دیکھ کر برملا کراہیت کا اظہار تو کر سکیں۔لعنت ہے ایسے لوگوں پر جو عبادت میں مصروف لوگوں کو عبادت گاہوں میں گھس کر قتل کرتے ہیں اور پھر فخریہ اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں۔ اس وقت افغانستان صدر اشرف غنی کے کنٹرول سے باہر ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ان کے دورِ اقتدار میں ”را” اور ” خاد” کے ایجنٹوں نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مل کرنا صرف اشرف غنی کو پریشان کیا ہوا ہے بلکہ یہ لوگ بڑھ بڑھ کر پاکستان میں بھی تخریبی سر گر میوں میں مصروف ہیں۔اس وقت اشرف غنی کا پورے افغانستان میں کنٹرول نہیں ہونے دے رہے ہیں۔ایکطرح سے ان لوگوں نے اشرف غنی کا نطقہ بند کیا ہوا ہے۔
ہندوستان نے ایک طرف تو پاکستان کو ایل او سی اور ورکنگ سرحدوں پر روزانہ جارحیت جاری رکھ کر مصروف کیا ہوا ہے۔ تو دوسری جانب افغانستان میں گھس کر پاکستان کے خلاف کار وائیاں کرا رہا ہے۔ہماری حکومت اس وقت بھی ہندوستان کی جارحیت کا بھر پور جواب نہیں دے پا رہی ہے جس سے بنئے کا دماغ اور زیادہ پھر گیا ہے۔ساری دنیا کے مبصرین اس بات پر اس وقت متفق ہیں کہ ہندوستان کا افغانستان میں سفارت خانہ اور پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ قائم ہندوستانی کونسلیٹ پاکستان میں جارحیت کرنے میں پیش پیش ہیں۔رااور افغانستان کی خاد کی ہی جیسی ایک اور ایجنسی این ڈی ایف جس کا کمانڈر عمر بتایا جاتا ہے جو عبد اللہ عبداللہ کے زیرِ کنٹرول ہے ۔پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں را ،اور ٹی ٹی پی کے ساتھ مل کر ارہی ہیں۔
ہندوستان در اصل یہ کاروائیاں اکانومک کوری ڈور کی تعمیر ہر قیمت پر رکوانے کی غرض سے کروا رہا ہے۔تحریکِ طالبان پاکستان اپنی بقا کی جنگ ضربِ عضب کا مقابلہ نہ کر پانے اور عساکرِ پاکستان سے اپنی تباہی کے خوف کی وجہ سے را کی ایجنٹ بن کر کر رہی ہے اور عبداللہ عبد اللہ کا گروہ پاکستان کے افغانستان پر مرتب ہونے والے اثرات کے خوف سے خوفذدہ ہے۔ اسطرح یہ ٹرائیکا پاکستان کے خلاف منظم سازشوں میں مصروف ہے۔ضربِ عضب کی کامیابیوں سے یہ تینوں گروہ پریشان ہیں ۔مگر یہ نوشتہء دیوار ہے کہ ضربِ عضب کو کوئی طاقت کامیابی سے ہمکنار ہونے سے نہیں روک سکتی ہے۔
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir23hurshid@gmail.com