زندگی کی سختیاں انسان کو بہت سے موافق و ناموافق حالا ت کے تھپڑوں سے گزارتے ہوئے ایک انمول ہیر ا بنا دیتی ہے، میری زندگی کے چند تجربات ہیں جو کہ مجھے کو تکبر و غرور میں مست نہیں ہونے دیتے ، میں نے اپنی زندگی میں بہت سے نامور آدمی دیکھے ہیں اگرچہ کہ وہ کتنے بڑے اور معروف ہی کیونکر نہ ہوں ان کے اندر میں نے اس قدر عجز و انکساری دیکھی ہے کہ واقعی انسان کو ایک دفعہ انسانیت کا احساس ہونے لگتا ہے، اور دل کرتا ہے کہ اُن لوگوں کی مجلس میں بیٹھ کر ان کی زندگی کے تجربات سے سبق حاصل کیا جائے، یہ ہی نہیں جب میں نے تاریخ اسلامی کی ورق گردانی کی تو میں نے دیکھا کہ رسول نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی سیرتوں اور امت کے نمایاں افراد کی سرگزشتوں میں لطافت کے ایسے ایسے موتی بکھرے پڑے ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے ہمیں اغیار کے ان بجھے ہوئے چراغوں کی کوئی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ میں نے جس چراغ کے اندر جلنے والے شعلہ کی حقیقت کو دیکھنے کی کوشش کی تو اسی کے اندر مجھ کو یہ احساس ہوا کہ یہ چراغ تو ہم نے ہی روشن کیا تھااور پھر میں نے دیکھا کہ جب تک ہمارے پاس مال و دولت کی فراوانی جاری رہے، زندگی کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں ترقی کے مناظر طے کرتے ہوئے ہر طرف روشن امکانات کا ایک سماء نظر آرہا ہو، ہر مراد پوری ہو رہی ہو، ہر کام اپنی مرضی و منشا کے مطابق ہوتا ہو ا نظر آرہا ہو تو انسان اسی کو کامیاب زندگی تصور کر لیتا ہے اور اس وقت اس کو اپنے اُس بھائی کی کوئی فکر نہیں رہتی جو ان تمام نعمتوں سے محروم ہو یا پھر وہ اپنے رب عزوجل کی کسی آزمائش کا امتحان دے رہا ہو تا ہے۔۔۔مگر۔۔۔وہ رب کی ان عطاکردہ نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے بجائے فکر و تکبر میں آجاتا ہے اور سمجھنے لگتا ہے کہ ساری دنیا اس کے آگے زیر ہے۔ مگر اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا ہے۔۔۔زندگی کو زبر نہیں سمجھنا چاہیے ، بلکہ زیر بن کر گزارنی چاہیے کیونکہ زندگی میں کبھی کبھی پیش بھی آجایا کرتی ہے ۔پھر جب میں نے دوسری طرف دیکھا ۔۔۔ان لوگوں کی طرف جو ان نعمتوں سے وقتی طور پر دور ہوتے ہیں تو ان کے اندر صبر استحکامت اس قدر مٹ گئی ہے کہ ذرہ سی آزمائش کی گھڑی آجائے تو انسان زندگی سے بیزار ہو جاتا ہے،تعلیم کے مکمل ہوتے ہی نوکری نہ ملی تو زندگی سے بیزار ہو جاتا ہے گو کہ چھوٹی چھوٹی بیزاریوں سے انسان بغیر کسی سوچ و سمجھ کے رب کی عطاکی ہوئی انمول نعمت زندگی کا چراغ گل کرنے کی سوچ لیتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر افراد کو ان مسائل سے دوچار ہو نا پڑتا ہے۔مگر ادھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کا انسان کیونکر اپنی زندگی سے اس قدر بیزار پایا جاتا ہے۔۔۔؟ آخر انسان اپنے آپ کو اس قدر گھٹیا کیوں تصور کر لیتا ہے۔۔۔؟ وہ کامیابی کی سیڑھیوں پر چڑھے افراد کو دیکھ کر خود سیڑھیوں پر چڑھنے کی کوشش کرنے کے بجائے ان سے حسد کیونکر کرتا ہے۔بلندیوں پر پہنچنا تو دور ان کی دیکھا دیکھی خود کوشش کیوں نہیں کرتا کہ بلند ی پر پہنچ سکے۔ہم اس بات کو بڑی خوبی کے ساتھ اپنے دوستوں کے درمیان بیٹھ کر بیان کرتے ہیں کہ میں فلاں بڑے شخص کو بہت اچھی طرح جانتا ہوںآج وہ بڑا آدمی بن گیا ہے اور میں ویسے کا ویسے ۔۔۔کیا اگر آپ اپنی صلاحیتوں کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے انکا استعمال کریں تو کامیابی کے سفر پر کامزن نہیں ہوا جا سکتا ۔۔۔؟؟؟ اگر دیکھا جائے تو انسان نے بری عادتوں کے رو برو سر تسلیم خم خود کیا ہے، جو اپنی موجودہ صلاحیتوں پر قناعت کر کے بیٹھ گیا اور کہتا ہے کہ میں کیا کر سکتا ہوں۔۔۔؟؟؟یا میرے بس میں ہے کیا۔۔۔؟؟؟ یہ اب میری قسمت کا حصہ ہونے کے ساتھ میرے مزاج کا اب ایک حصہ ہے میں اس کو کیسے اور کیونکر تبدیل کر سکتا ہوں۔ میں اپنے ان حالات زندگی اور اپنے مزاج کو بذاتِ خود تبدیل نہیں کرسکتا۔مگر پھر میں نے ساری باتوں کا نچوڑ اسی بات پر نکالا کہ زندگی میں کامیابی کے چند اصول ہیں جن کی بدولت آپ اپنی زندگی کی روح کو کسی بھی سمت کسی بھی وقت پلٹ سکتے ہیں مگر اس کے لیے تُر ش رُوئی کو چھوڑ کر اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجانی ہوگئی ،ا فسردگی کو خیر باد کہہ کر ہشاش بشاش اور خوش نظر آنا ہوگا، کنجوسی و لالچ کو چھوڑ کر کشادہ دلی سے کام لینا ہوگا،، اپنے غصے پر قابو پا نا ہوگا، اپنے غم و اندیشوں کو صبر وتحمل سے برداشت کرنا ہوگا، مصائب کے گُھپ اندھیروں میں سے خوشی کی کرنیں خود آگے بڑھ کر تلاش کرنی پڑیں گئی، اپنے ایمان ، یقین، اعتماداور ہمت سے لیس ہتھیاروں سے اپنی قسمت کو بدلنے نکلنا ہو گا، اپنی زندگی کا ایک ایمان فروز مقصد رکھنا ہوگا، زندگی کی پریشانیوں سے مایوس ہونے کو چھوڑ کر اپنی رائیں تلاش کر کے دن بدن ہر قدم آگے بڑھنا ہو گااور زندگی میں کامیابی کا راز صرف اور صرف ایک ہی ہے جس کو اپنانا ہوگا اور وہ ہم کو اتباع شریعت محمدی ﷺ سے ہی مل سکتا ہے اس لیے امت محمدی ﷺکے تمام مسائل کا حل اللہ کے رسول ﷺ کی سیرتِ پاک میں موجود ہے، بلاشبہ آپ ﷺ کی زندگی ہمارے لیے باعث تقلید ہے، کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو اسکا حل سیرت پاکﷺ میں موجود ہے، ہمارے دین، دینِ اسلام کے ابتدائی دور کی داستانیں بھی آپ نے پڑھی ہونگی جب مسلمانوں ایک کجھور سے روزہ رکھتے تھے اور اسی سے افطار کیا کرتے تھے اور اس وقت کے واقعات بھی آپ کو معلوم ہونگے جس وقت قیس و قصراکے ریشم و جواہرات مدینے کی گلیوں میں پڑے ہوئے تھے۔۔پھر آپ نے وہ بھی سنا ہو گا کہ زکوۃ کا مستحق پوری سلطنت میں کوئی موجود نہیں تھا۔۔۔پھر وہ جذبہ ایمانی بھی آپ نے سنا ہو گا کہ بحر ظلمات میں جب گھوڑے دوڑائے گئے تھے۔۔۔اگر وہ بھی بھول گئے ہو تو کبھی تاریخ کے صفوں میں طارق بن زیاد ۔۔۔صلاح الدین ایوبی ۔۔۔حجاج بن یوسف۔۔۔ محمد بن قاسم ۔۔۔ جیسے نامور اشخاص کے بارے میں پڑھ لینا کہ تاریخ ان لوگوں کی کامیابی کا راز کیا بتاتی ہے۔ ہمیشہ ہم مسلمان زندگی کے ہر میدان میں اسی وقت کامیاب ہوئے ہیں جب تک ہم نے مرکز کے ساتھ اپنا رشتہ مضبوط کیے رکھا اور آج ہماری ناکامیوں کی جو اصل وجہ ہماری مرکز سے دوری ہے، ہم نے اتباع محمدی ﷺ سے دوری اختیار کر لی ہے۔ہم کو اپنے دین کے قوانین ، اصول و ضوابط کی طرف پلٹنا ہو گا۔ ہم کو صحیح معنوں میں مسلمان بننا ہو گاایسا مسلمان جو جنس و انس کے علاوہ حیوانات کیساتھ بھی احسن برتاؤ کرنے کے طریقے بتاتا ہے ۔۔۔آئیے اسلام کی طرف۔۔۔آئیے فلاح کی طرف۔۔۔آئیے کامیابی کی طرف۔۔۔کامیابی آپ کی منتظر ہے