تحریر: امینہ فلک شیر
بس اسکی دیوانی ہو کر کے
چھم نیر بہائے نین گوائے
جب پوچھا کسو نے کون ہے یہ
تب اس نے کہا یہ عورت ہے
عورت ہی تہ ہے جو بغیر اجرو جزا کا تقاضا کیے اک اوڑھنی کی طرح درد و اذیتیں اپنے اندر سموئے جاتی ہے بے شک مشرقی معاشرے میں عورت ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے رشتوں سے موسوم کی جاتی ہے مگر معاشرے میں بلند مقام ماں اور بہن کو ہی حاصل ہو پاتا ہے مگر جیسے ہی عورت بیوی کے رشتے سے منسوب ہوتی ہے تو پھر جیسے اسکی کایا ہی پلٹ جاتی ہے آغاز ازدواجی حیات چند ماہ تو کسی دیو مالائی داستان کی ماہرانی کی طرح گزر جاتے ہیں پھر وہی ”چار دن کی چاندنی ، پھر اندھیری راتیں” کے مترادف یک لخت ظلم و ستم اور سرد جنگ کا طویل دور جنم لے لیتا ہے۔
جان من دشمن جاں دکھائی دینا شروع ہو جاتی ہے اور صبر کی دیوی کا سر مظالم توڑنے کا مقام قرار پاتا ہے کہیں چولہوں کے پھٹنے تو کہیں گیس کے اخراج سے بہوئیں جلتی بھنتی دکھائی دیتی ہیں کہیں الزام بد چلنی پر سر منڈوا دئیے جاتے ہیں تو کہیں سنگسار کردی جاتی ہیں کہیں ننگے سر گلیوں میں گھسیٹا جاتا ہے تو کہیں سسر کے ہاتھوں بہو کے چوک میں ٹکٹرے کر دیے جاتے ہیں عورت کو چارے کی طرح کاٹا جاتا ہے نفع بھی دیتی ہے اور جان بھی گنواتی ہے عورت لاکھ ہزارہوجائے مگرغیر مرئی حصار میں محصور رہتی ہے ملازم پیشہ خواتین ایسے حراسمنٹ کا زیادہ سامنا کرتی نظر آتی ہیں ایک تو تمام دن تھکا دینے والی ملازمت واپسی پر شکی نظروں کا استقبال ‘ مینٹل ٹارچر اعصاب کو ناکارہ کر دیتا ہیں کیا کبھی کسی سے جسارت کی کہ جان سکیں کہ ایسا لفظ بیوی کے لیے ہی کیوں استعمال ہوتا ہے کیا دوسرے رشتوں کے لیے شک کے معملات ممنوع ہیںوہ کونسے عوامل ہیں جو مر د کو فقط ایک رشتے کی دوسرے رشتے میں تبدیلی سے لمحے بھر میں جابر و بے حس بنا دیتے ہیں۔
میرے نزدیک انکی ابتداء ہمارے اپنے گھروں سے ہی ہوتی ہے ہمارے معاشرے کی خود ساختہ روش کے بیوی پاؤں کی جوتی ہے ایک اتارو دوسری پہنو تیسری پہنر چوتھی پہنو اور پھر جتنی چاہو تبدیل کرتے جاؤ مرد کا حق ہے کبھی بھی کسی نے اس حق کے استعمال کی تیہ تک پہنچنے کی سعی نہیں کی انتہا ہے چشم پوشی کی یہی وہ وجوہات ہیں جو طلاق و خلع جیسی ناپسندیدہ باتوں کا موجب بنتی ہیں خاص طور پر نوجوان نسل شادی کے نام سے خوفزدہ دکھائی دیتی ہیں وہ ان نا انصافیوں کا مشاہدہ ہر چینل و میڈیا پر عام ہونے سے اپنے لیے جائے پناہ پڑھ لکھ کر بغیر شادی اچھی جابز میں تلاش کرتی دکھائی دیتی ہیں عورت سے مرد کا غیر مساوی سلوک مادر پدر آزاد معاشرے کو مظبوط بنیادیںفراہم کر رہا ہے نسل نوح رنگینوں میں سکون قلب کی متلاشی پائی جا رہی ہے یہ قدم انہیں مذہب سے دور و بیگانہ کر رہا ہے۔
بحثیت ایک زندہ قوم ہمارہ فریضہ ہے کہ مستحکم و پر امن معاشرے کی قیام کی خا طر ٹھوس بنیادوں پرنہ صرف سوچا جائغ بلکہ عاقبت سنوارنغ کے لیے عملی اقدام بھی کیا جائے کیونکہ ہمارے دین اسلام میں بھی اپنی بیویوں سے حسن سلوک سے پیش آنے کا حکم ہے آئیے اس احسن فعل کی ابتداء اپنے گھروںسے کیا جا ئے سا س اپنی بہو کو نہ صرف بیٹی کہے بلکہ بیٹیوں والا سلوک روا بھی رکھے اور بہو بھی ساس کا احترام اپنی ماں جیسا کرے اسے بیٹیوں جیسا پیار دے دوسری جانب خاوند بھی اپنی ماں بہن کی خوشی کی خاطر بیوی پر جابرانہ رویہ ختم کرے ورنہ یہ ناسور کینسر کی مانند ہماری نسلوں کو چاٹ جائے گا اور دین و دنیا میں فساد کا باعث بنے گا اعصابی تناؤ کا شکار بیوی مجذوب بچوں کو جنم دے گی اور پھر زمانہ جاھلیت کے دور دورے کے خطرات منڈلاتے دکھائی دے رہے ہیں۔
ابتداء الٹی میٹلی بڑوں کو ہی کرنی پڑے گی اس لیے مائیں جب بیٹوں کو بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کا درس دینگی تو کیسے ہو سکتا ہے بیٹا ماں کے حکم کو رد کرے کیوں کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے اسکا احترام ہر پڑھا لکھا اور ان پڑھ بیٹا بڑے اھتمام سے کرتا ہے یہ بات بھی تحقیق شدہ ہے کہ عورت ہی عورت کا گھر بگاڑتی ہے رشتے بدل بدل کے توخدا را اس حقیقت کو دل سے قبول کر لیں عورت کا خمیر پیار سے بنتا ہے اسے ہر روپ میں پیار و شفقت دو نتیجہ عمل وخشحالی ہو گا میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں انہیں تار تار ہونے سے بچانا میاں بیوی دونوں کی ذمہ داری ہے انہیں کو ئی پیوند لگانے نہ آئے گا۔۔
میرا سب سے یہی پیغام ہے
کروجو پیار تم اک بار
گلوں کے ہا ر کردیگی
فقط عورت فقط عورت
زمانے کے تسلط سے
تمہیں آزاد کر دیگی
فقط عورت فقط عورت
تحریر: امینہ فلک شیر
aminafalaqsher@gmail.com