شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت لقمان سیاہ فام تھے۔ آپ ایک دن بغداد کے ایک بازار سے گزررہے تھے کہ ایک شخص نے آپ کو اپنا بھاگا ہوا غلام سمجھ کر اپنے گھر کی تعمیر کے لیے مٹی کھودنے کے کام پر لگادیا۔آپ وہاں ایک سال تک مٹی کھودنے کی سخت مشقت برداشت کرتے رہے۔ ایک سال بعد اس شخص کا غلام واپس لوٹ آیا۔ وہ غلام آپ کوجانتا تھا۔ اس نے آپ کی یہ حالت دیکھی تو آپ کے قدموں میں گر پڑا اور معافی مانگنے لگا۔جس نے آپ کو مٹی کھودنے پر لگایا جب اسے آپ کے مقام و مرتبہ کے متعلق علم ہوا تو اس نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے نہایت عاجزی کے ساتھ آپ سے معافی مانگی۔آپ نے فرمایا کہ جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا۔ میں اس کام میں بھی گھاٹے میں نہیں رہا۔ میں نے یہاں سے دانائی کی ایک بہت قیمتی بات سیکھی۔ وہ یہ کہ اپنے سے کم کو کبھی کسی مصیبت میں مبتلا نہیں کرنا چاہئے۔ میرا بھی ایک غلام ہے جس سے میں ہر قسم کے کام لیتا تھا لیکن یہ مشقت اٹھانے کے بعد مجھے معلوم ہوگیا کہ اس قسم کے کاموں سے کس قدر روحانی وجسمانی تکلیف ہوتی ہے۔ اب میں بھی اپنے غلام سے ہرگز ایسے کام نہ لوں گا جس سے اسے روحانی وجسمانی تکلیف اٹھانی پڑے۔حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ اس حکایت میں بیان کرتے ہیں کہ رحم دلی اور خدا تسری ایسے اوصاف ہیں جن کی بدولت انسان بلند مرتبہ پا سکتا ہے۔ جب تک کوئی شخص تکلیف میں مبتلا نہ ہو وہ کسی دوسرے کی تکلیف کونہیں سمجھ سکتا۔ انسان کی عظمت اسی میں پوشیدہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو دوسرے کی جگہ رکھ کر اس کی مصیبت و تکلیف کا احساس کرے۔ اللہ عزوجل کے بھیجے ہوئے انبیاء کرام ﷺ نے بھی ہمیں انہی باتوں کی تعلیم دی ہے