لاہور (ویب ڈیسک) آئی ایم ایف سے معاہدے کے تاریخ ساز ہونے میں کوئی شک نہیں۔ بہت سے تبصروں میں کہا گیا ہے کہ ملک کو گروی رکھ دیا گیا۔ بجا۔ ملک کو گروی رکھنا کیا تاریخ سازی نہیں! ایمان سے بتائیے۔ نامور کالم نگار عبداللہ طارق سہیل اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بولڈ فیصلہ ہے کہ نہیں۔ اسی کو تو کہتے ہیں ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان۔ ایک سینئر تجزیہ کار نے لکھا ہے کہ یہ بیل آئوٹ معاہدہ نہیں، سیل آئوٹ دستاویز ہے تو جناب کیا سیل آئوٹ کرنا کسی عام سیاستدان کے بس میں ہوتا؟ کار مرداں ہے صاحب! کپتان جیسا مرد ہی کر سکتا تھا۔ ایک امیر محترم نے فرمایا ہے، اب ایٹمی پروگرام کے بارے میں خطرہ لاحق ہو گیا۔ امیر صاحب مناسب سمجھیں تو بائیس سال پہلے کی حکیم سعید کی پیش گوئی پڑھ لیں۔ اس میں جو لکھا تھا، مرحلہ وار ہو رہا ہے۔ پہلے معیشت کا سقوط، پھر ایٹمی پروگرام کی باری، پھر ڈومز ڈے۔ یہی ہو رہا ہے کہ نہیں۔ ایک بولڈ فیصلہ ایک فرزند راولپنڈی نے لگ بھگ پچاس سال پہلے یہاں سے ہزار میل مشرق کے ایک میدان میں کیا تھا، دوسرا بولڈ فیصلہ دوسرے فرزند راولپنڈی کے نصیب میں آیا، زہے نصیب۔ ٭٭٭٭٭ بہت طول طویل تبصرے ہو رہے ہیں اور ابھی تو بہت ہوں گے۔ حالانکہ بات دو سطر میں بھی مکمل کی جا سکتی ہے بلکہ سچ کہیے تو دو لفظ بھی کافی ہیں۔ معیشت کا سقوط۔ ایک پیش گوئی تھی کہ 80لاکھ پاکستانی مزید غربت کی لکیر سے نیچے لڑھک جائیں گے۔ اب اس پیش گوئی کو کالعدم سمجھیے۔ اشرافیہ کے دس فیصد کو چھوڑ کر سارا ملک ہی تحت الثریٰ کی سیر کرنے والا ہے۔ اوپر دیوتائوں کا زائرین تخت، نیچے پاتال کی دنیا۔ وزیر باتدبیر خسرو بختیار کے بیان کی سرخی ملاحظہ فرمائیے۔ فرمایا: معاہدہ اپنی جگہ، غریبوں پر بوجھ نہیں پڑے گا۔ سبحان اللہ، سرخی پڑھ کر متن پڑھنے کی ضرورت ہی کہاں رہ جاتی ہے۔ ویسے سچ فرمایا، ’’غریب‘‘ سے مراد عمران اور خسرو بختیار خواہوں تو واقعی بوجھ نہیں پڑے گا۔ کبھی کابینہ کی ’’دعوت طعام‘‘ کی تصاویر ملاحظہ فرمائیے۔ واقعی فرق نہیں پڑے گا بلکہ رونق اور بڑھے گی۔ پروٹوکول قافلے اور لمبے ہوں گے، پارٹیوں کی رعنائیاں اور فروغ پائیں گی۔ ٭٭٭٭٭ خسرو بختیار کا بیان اپنی جگہ، اس سے بھی بامعانی بیان فردوس عاشق کا ہے۔ فرماتی ہیں، عمران پسے ہوئے طبقات کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں۔ پسے ہوئے طبقات میں خود فردوس اعوان بھی شامل ہیں اور ان کا نام تو خیر دیباچے میں ہے ورنہ پسے ہوئے طبقات کی فہرست بہت لمبی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔ جہانگیر ترین، علیم خان، خسرو بختیار، دائود رزاق، حفیظ شیخ، زلفی بخاری، انیل مسرت، فیصل واوڈا، مراد سعید، بابر اعوان، فہمیدہ مرزا، زبیدہ جلال، گوندل برادران، فواد چودھری، اعظم سواتی اور مزید پسے ہوئے طبقات شجاعت الٰہی، مونس الٰہی، وجاہت الٰہی، پرویز الٰہی، طارق بشیر چیمہ، یہ سب عنوانات ہیں، مضامین میں مندرج نام بے شمار ہیں۔ اور بذات خود عمران خان بھی تو بہت بڑا پسا ہوا طبقہ ہیں۔ بس دیکھتے جائیے۔ ان پسے ہوئے طبقات کی محرومیاں دور کرنے کی جنگ اگلے مرحلے میں کب داخل ہوتی ہے۔ ٭٭٭٭٭ اقتصادی تجزیہ نگار فرخ سلیم نے رات ایک چینل پر فرمایا۔ نوماہ میں نو ارب ڈالر قرضے لیے گئے اور سب ختم ہو گئے، اب یہ قومی خزانے میں موجود نہیں ہیں۔ فرخ سلیم صاحب نے ’’بیان‘‘ دیا ہے۔ بیان سے جنم لینے والا سوال نہیں اٹھایا۔ چاہئے تھا سوال اٹھاتے اور پھر اس کا جواب بھی دیتے۔ سوال یہ ہے۔9ارب ڈالر قومی خزانے میں نہیں ہیں تو پھر کہاں ہے۔ جواب یہ ہے، وہیں گئے جہاں آئی ایم ایف سے ملنے والے 6ارب جائیں گے۔ قوم اور ملک کو ایک دھیلہ ملا نہ ایک دھیلا ملے گا۔ گھی کہاں گیا، کھچڑی میں اور کھچڑی کہاں گئی یاروں کے پیٹ میں۔ ٹیکسوں کی مد میں 500ارب کا شارٹ فال ہوا ہے۔ بتایا گیا ایک بیانیہ یہ ہے کہ یہ پانچ سو ارب وصول نہیں ہو سکے لیکن اصل بیانیے کا روپ ذرا الگ ہے، وہ یہ کہ وصول ہوئے ہی نہیں یا وصولی کے بعد غتربودہو گئے۔ ایک اینکر صاحب فرما رہے تھے کہ یہ پانچ سو ارب کوئی معمولی رقم نہیں۔ اتنا بڑا گھپلا ہے کہ اس کی جے آئی ٹی بن گئی تو ساری حکمران جماعت اڈیالہ جیل میں ہو گی۔ تسلی رکھئے صاحب، ایسے معاملات کی جے آئی ٹی کبھی بنی ہے نہ بنے گی۔ اڈیالہ جیل جانے والی صورتیں اور ہوتی ہیں، یہ نیکوکار روحیں ہیں۔ صادق اور امین، پانچ سو ارب کی حقیر سی رقم کیا اور اس کا ماتم کیا۔ ٭٭٭٭٭ کراچی کے سانحہ 12مئی کو بارہ سال پورے ہو گئے۔ اخبارات نے سرخی لگائی، بارہ سال بعد بھی کسی کو سزا نہیں ملی۔ اصول سے نا واقفی ہو تو ایسی ہی سرخیاں نکلتی ہیں۔ اصول یہ ہے کہ ریاستی اثاثوں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوا کرتی۔ پھر وہ چاہے بارہ مئی کے ریاستی اثاثے ہوں، سانحہ بلدیہ ٹائون کرنے والے اثاثے ہوں یا رائو انوار جیسے اساسی اثاثے۔ بارہ سال بعد اتفاق دیکھئے، جو صف بندی تب تھی، وہی اب بھی ہے۔بارہ مئی کرانے والوں کے سرخیل پرویز مشرف تھے اور ان کے اتحادی تھے احباب قاف لیگ اور ارباب سندھ۔ آج بارہ سال بعد وہی صف بندی لوٹ آئی۔ مشرف کی جگہ ان کے ریفرنڈم کے چیف پولنگ ایجنٹ نے لے لی، دائیں ارباب قاف لیگ ہیں تو بائیں ارباب سندھ اللہ اللہ خیر سلا۔ اسے قران السعدون کہتے ہیں(سعد دو سے زیادہ ہیں نا اس لئے۔