ہارون الرشید نے ایک دن شاہی باورچی سے دریافت کیا ، کیا جزدر (ایک قیمتی و نایاب جانور) کا گوشت ہے مطبخ خانے میں ؟
ہر طرح کا ہے حضور ۔ شاہی باورچی نے جواب دیاتو آج رات کا کھانا اسی سے ہوگا۔ ہارون الرشید نے حکم دیا۔رات کا کھانا لگایا گیا ، ہارون الرشید نے جزدر کے گوشت کا ایک نوالہ منہ میں رکھا پاس اس کا وزیر جعفر برمکی کھڑا تھا وہ ہنس دیا ، ہارون الرشید نے دریافت کیا کہ تم ہنسے کیوں ؟جعفر نے کہا کہ بس چھوڑیئے ۔ ہارون الرشید کہنے لگے نہیں جب تک بتاو گئے نہیں میں کھانا نہیں کھاوں گا آپ کے خیال میں یہ جو ابھی ایک لقمہ آپ نے کھایا ہے اسکی مالیت کیا ہوگی ؟ جعفر نے دریافت کیا ؟قریبا تین ہزار درہم ۔ ہارون الرشید کا جواب تھانہیں حضور اسکی قیمت 4 لاکھ درہم ہے ، جعفر حیران کرنے پر تلا ہوا تھا یہ سن کر ہارون الرشید کے کان کھڑے ہوگئے پوچھا وہ کیسے ؟جعفر کہنے لگا کہ کچھ عرصہ قبل بھی آپ نے اس گوشت کی فرمائش کی تھی اتفاق سے یہ گوشت اس وقت موجود نہ تھا آپ نے کہا کہ یہ گوشت شاہی باورچی خانے میں موجود رہنا چاہیے آپ تو یہ بات کرکے بھول گئے لیکن ہر روز اس جانور کے گوشت کی فراہمی یقینی بنائی گئی لیکن آپ نے دوبار ہ فرمائش نہیں کی ، آج کی ہے اور ابھی تک 4 لاکھ درہم کا گوشت خریدا جاچکا ہے ، بس مجھے اسی بات پر ہنسی آگئی کہ ایک ڈش کے لیے چار لاکھ درہم ابھی تک صرف ہوچکے ہیںیہ سننا تھا کہ ہارون الرشید کا خوف کے مارے برا حال ہوگیا زاروقطار رونے لگا کہ اسکی وجہ سے اتنا اسراف ہوگیا حکم دیا کہ دسترخوان اٹھا لیا جائے اور کچھ نہ کھایا ، مداوا کے لیے دو لاکھ درہم مکہ و مدینہ کے مستحق لوگوں کی طرف بطور خیرات بھیجے اور اتنے ہی کوفہ و بغداد کے فقرا میں تقسیم کیے لیکن قلق پھر بھی باقی رہا اور غم کے مارے کچھ نہ کھا سکا ، یہاں تک کے قاضی ابویوسفؒ تشریف لائے پوچھا اس حال کی کیا وجہ ہے ؟ خلیفہ نے ماجرا بیان کیاابویوسفؒ نے ساتھ کھڑے جعفر برمکی سے پوچھا کہ یہ جو ہرروز جانور ذبح کیا جاتا تھا کیا اسکا گوشت ضائع ہوجاتا تھا ؟ اس نے جواب دیا نہیں ضائع تو نہیں ہوتا تھا بلکہ اسکو غریب لوگوں میں تقسیم کردیا جاتا تھاابویوسفؒ نے یہ سن کر خلیفہ کو تسلی دی کہ آپ پریشان نہ ہو بلکہ آپ کی بدولت غریب لوگ بھی ایسا شاندار کھانا کھاتے رہے ہیں اور یہ ایک صدقے کی مانند ہےیہ سن کر خلیفہ کا رنج و الم دور ہوا اور اس نے کھانا کھایا۔قارئین کرام اس ایک واقعے میں ہمارے لیے بھی سبق ہے ، آج ہم اپنے کھانے پینے پر بے دریغ خرچ کرتے نہیں تھکتے جبکہ ہمارے غریب رشتہ دار اور ہمسائے بھوکے رہتے ہیں ، ہم میں سے اکثر شادی بیاہ کی تقریبات میں مشاہدہ کرتے ہوں گے کہ کس طرح کھانا ضائع کیا جاتا ہے اور کوڑے تک میں پھینکنے سے احتراز نہیں کیا جاتا، ہمارے حکمرانوں کے لیے بھی اس واقعے میں عبرت کا سامان ہے ۔ اللہ ہم سب کو رزق کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔بحوالہ البدایہ و النہایہ از امام ابن کثیرؒ