لاہور (ویب ڈیسک) اس صدی“ کو اگر عمران خان اور اردوان ہی کی ٹھہرادیا جائے تو بھی ترکی کی سیاست کے واجبی علم کے باعث یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ تحریک انصاف کے بانی اور اردوان کی شخصیات اور سیاسی کیرئیر میں ہرگز کوئی مماثلت ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ کئی دنوں سے ارادہ باندھ رکھا ہے کہ
نامور کالم نگار نصرت جاوید روزنامہ نوائے وقت میں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ”مادی“ اور ”روحانی“ دنیاﺅں کے درمیان فرق کو سمجھنے کے بجائے عمران خان اور اردوان کے درمیان تفریق کے بارے میں تفصیلی انداز میں لکھا جائے۔ ڈنگ ٹپاﺅ کالم لکھنے والوں کے پاس مگر تھوڑی تحقیق کے بعد اپنی بات سمجھانے کا ہنر میسر نہیں ہوتا۔ جب بھی اس موضوع پر لکھنے کا سوچا تو طے ہی نہ کرپایا کہ آغاز کہاں سے کروں۔اردوان کے بارے میں سب سے پہلے یہ حقیقت نگاہ میں آتی ہے کہ وہ بذاتِ خود عمران خان صاحب کی طرح کسی تحریک یا سیاسی جماعت کا بانی نہیں ہے۔اس کی سیاسی منظر پر نموداری کے پیچھے کئی برسوں تک پھیلی ایک سوچ اور تحریک ہے جس نے مصطفےٰ کمال اتاترک کے ”سیکولر انقلاب“ کو ہرگز قبول نہیں کیا تھا۔ خلافتِ عثمانیہ کے دور شکوہ کی یادوں سے پھوٹی اس سوچ نے مصر کے اخوان المسلمین اور پاکستان کی ”فکر مودودی“سے رجوع کیا۔ مبادیاتِ اسلام سے دور حاضر کے مسلمان ممالک کے لئے کوئی سیاسی لائحہ عمل تیار کرکے اسے لاگو کرنے کی کوشش کی۔ ترکی کی فوج خود کو اتاترک کی تعلیمات کا وارث اور محافظ تصور کرتی تھیں۔ اس نے بہت شدت سے ردِ اتاترک والی تحریک کو دبانے کی کوشش کی۔ٹھوس معاشی وجوہات نے مگر اسکے جبر کو کمزور کیا۔
اناطولیہ کے پہاڑی دیہاتوں اور قصبات سے رزق کی تلاش کے لئے ”کاسمپولئین“ استنبول میں آئے بے زمین اور دیہاڑی دار لوگوں نے احیائے اسلام کے نام پر اٹھی تحریک کو ہجوم کی قوت عطا کی۔ استنبول کا میئر ہونے کے سبب اردوان اس ہجوم کا ہیرو بن کر ابھرا۔ اردوان نے بحیثیت میئر استنبول کی کچی بستیوں کو ”ریگولر“ کیا۔ دیہاتوں میں زمینیں گنواکر شہر میں آئے مفلس دیہاڑی دار اس کے فیصلوں کی وجہ سے ”مالک مکان“ ہوگئے۔ ان مکانوں میں بجلی کنڈوں کے ذریعے چوری کرکے فراہم کی جاتی تھی۔اردوان نے بجلی کی ترسیل کویقینی اور قانونی بناکر مالکِ مکان بنائے افراد کو اس کے بل دینے پر مجبور کیا۔ اردوان کی بدولت لاکھوں افراد پر مشتمل سیاسی طورپر متحرک ایک ہجوم بھرپور انداز میں نمودار ہواجسے استنبول کی روایتی اشرافیہ ”قبضہ گروپوں“ کے محتاج اَن پڑھ اور اجڈ دیہاتی تصور کرتے ہوئے رعونت سے نظرانداز کرتی رہی تھی۔تازہ ترین سیاسی زبان میں یوں کہہ لیجئے کہ اردوان نے نچلے ترین متوسط طبقے کی Upward Mobilityمیں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ استنبول کو پاکستان کا کراچی تصور کرلیجئے اور اناطولیہ کو ہمارے ہاں کا پوٹھوہار۔ ترکی کے پوٹھوہاری اب وہاں کے استنبول جسے تاریخ میں قسطنطنیہ کہا گیا ہے کے اصل وارث اور مالک بن چکے ہیں اور اپنی ”مالکی“ کا کریڈٹ اردوان کو دیتے ہیں۔ عمران خان صاحب نچلے متوسط طبقے کی Upward Mobilityکی فکر میں مبتلا نظر نہیں آتے۔ اسلام آباد کی کچی بستیو ں کو بلکہ مسمار کررہے ہیں تاکہ ”قبضہ گروپ“ سے آزاد کروائی زمینیں ریاستِ پاکستان ”ہاﺅسنگ سوسائٹیاں“ بنانے والوں کے حوالے کرسکیں۔ ”جدید ترین رہائشی سہولتوں سے مزین“ ان ہاﺅسنگ سوسائٹیوں میں رہنے والوں کو Gated Communitiesبھی کہا جاتا ہے۔ عام آدمی وہاں جاتے ہوئے گھبراتا ہے۔ منہ اٹھاکر وہاں کوئی چل پھررہا ہوتو اسے ”مشکوک“ گردانا جاتا ہے۔ اس کا شناختی کارڈ دیکھا جاتا ہے۔ اس کی تلاشی لی جاتی ہے۔رزق کی تلاش میں شہروں میں دربدر ہوئے ذلتوں کے مارے افراد کے عمران خان سرپرست بننے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے۔ جہانگیر خان ترین اور علیم خان جیسے افراد ان کی سیاست کے اصل Services Providersہیں۔ سہولت کار۔ ایسے ا فراد کی ہمراہی میں ان کا اردوان جیسا ہونا ممکن ہی نہیں ۔