ایک دن حضرت علیؓ مدینہ کی گلیوں میں چلے جا رہے تھے کہ آپؓ نے دیکھا کہ کچھ لوگ غیظ و غضب کی حالت میں ایک عورت کو گھسیٹتے ہوئے جا رہے ہیں وہ عورت خوف کے مارے کانپ رہی ہے۔ حضرت علیؓ نے پکار کر کہا: تم اس عورت کو کیوں گھسیٹ رہے ہو؟لوگوں نے بتایا کہ اس عورت نے بدکاری کی ہے، اسی لیے امیرالمومنین حضرت عمرؓ نے اس عورت کو سنگ سار کرنے کا حکم دیا ہے۔حضرت علیؓ نے اس عورت کو ان کے ہاتھوں سے چھینا اور ان لوگوں کوخوب سرزنش فرمائی۔ چنانچہ وہ لوگ حضرت عمرؓ کے پاس گئے اور حضرت علیؓ کے بارے میں بتایا کہ انہوں نے ان کے ساتھ ایسا سلو ک کیا ہے۔ حضرت عمرؓ فرمانے لگے:حضرت علیؓ نے ضرور کسی بات کے معلوم ہونے پر ایسا کیا ہوایسا کیا ہو گا، جاؤ! ان کو میرے پاس بھیجو، حضرت علیؓ غصہ کی حالت میں آئے، حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا: آپؓ نے ان لوگوں کو کیوں واپس کر دیا اور ان کو اس بدکار عورت پر حد قائم کرنے سے کیوں منع کیا؟ حضرت علیؓ نے کہا کہ اے امیرالمومنین! کیا آپؓ نے رسول کریمؐ کا یہ ارشاد نہیں سنا کہ آپؐ نے فرمایا:’’تین طرح کے لوگوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے (یعنی وہ بے قصور ہیں)۔ ایک سونے والا آدمی یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے، دوسرا نابالغ جب تک کہ وہ بالغ نہ ہو جائے اور تیسرا گناہ میں مبتلا آدمی جب تک باہوش نہ ہو۔‘‘ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ہاں میں نے یہ ارشاد سرور عالمؐ سے سنا ہے کہ حضرت علیؓ نے تبسم فرمایا اور کہا کہ اے امیرالمومنین! اس عورت کو کبھی دیوانہ پن کا دورہ پڑتا ہے، ہو سکتاہے کہ وہ آدمی اس کے پاس اس حالت میں آیا کہ اسے دیوانہ پن کا دورہ پڑا ہو۔ (یہ سن کر) حضرت عمرؓ نے اس عورت کو رہا کر دیا۔