آج کا انسان طرح طرح کی آسائشوں کا عادی ہے- یہ مہینوں کا سفر محض چند گھنٹوں میں طے کر لیتا- میلوں دور بیٹھے لوگوں سے رابطہ قائم کرلیتا ہے-یہ سب کچھ سائنس کی ترقی کے سبب ممکن ہوا ہے-لیکن ترقی کا یہ سفر اتنا بھی آسان نہ تھا-یہ ترقی ہم تک پہنچانے کے لئے علم و تحقیق کی جستجو رکھنے والوں نے نہ صرف اپنی زندگیاں وقف کر دیں بلکہ کئی سائنسدان اسی جرم میں اذیت ناک موت کا شکار بھی ہوئے۔چاہے وہ یورپ کا مشہور سائنسدان گلیلیو ہو جس نے پہلی مرتبہ یہ نظریہ پیش کیا کہ زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے۔جس کی پاداش میں تمام عمر قید تنہائی میں گزاری یا پھر اس جیسے کئی مغربی سائنسدان جو اپنے جدید نظریات کے سبب قید یا موت کے مستحق ٹھہرے۔یہ صورتحال صرف یورپ کی ہی نہ تھی بلکہ مسلم دنیا کے مشہور ترین سائنسدانوں نے بھی علم و تحقیق کی بہت بھاری قیمت چکائی ہے۔وہ مسلمان سائنسدان جن کا نام لیتے ہوئے ہمارے سر فخر سے بلند ہو جاتے ہیں۔ چند مسلمان سائنسدانوں کو ملنے والی ہولناک سزاوں کی تفصیل کچھ یوں ہے۔یہ بارہویں صدی کے مشہور فلسفی ہونے کے علاوہ ماہر فلکیات ریاضی دان اور ماہر طبیب بھی تھے۔یورپ کے جدید فلسفے کی بنیاد ابن رشد کی تعلیمات پر ہی اٹھائی گئی ہیں۔لیکن اس عظیم شخصیت کے ساتھ بھی کچھ زیادہ اچھا سلوک نہیں ہوا۔بارہویں صدی کے آخر میں جب ابو یوسف نامی حاکم نے قرطبہ میں اقتدار سنبھالا تو ابن رشد کو اپنے فلسفے کی وجہ سے حاکم وقت سے اختلافات کا سامنا کرنا پڑا۔ابن رشد کی سوائے کچھ کتابوں کے تمام کتابیں آگ کے حوالے کردی گئیں اور اس نے اپنی زندگی کے آخری ایام گمنامی میں گزارے۔آپ نے فلسفہ طبیعات، حساب، طب، کیمیاء اور علم فلکیات میں خدمات سرانجام دیں۔خلیفہ مامون محتسب اور واثق کے ادوار میں یعقوب قندی کو خوب حکومتی سرپرستی ملی جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس عظیم دانشور نے شعور انسانی کی ترقی میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔ خلیفہ متوکل کے برسر اقتدار میں آنے کے بعد بنیاد پرستوں کے ساتھ اختلافات کے بعد خلیفہ نے آپ کے کتب خانے کو تحویل میں لینے کا حکم جاری کیا اور بازار میں سرعام پچاس کوڑے لگوائے۔حمدان کے امیر نے ابن سینا کو اپنا وزیر مقرر کیا۔لیکن بنیاد پرستوں کے ساتھ اختلافات کے بعد ابن سینا کو روپوشی اختیار کرنا پڑی۔امیر نے اس کا سر قلم کرنے کے احکامات جاری کیے۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ دنیائے طب کی مشہور کتاب “قانون فی الطب” ابن سینا نے اسی روپوشی میں لکھی۔انہیں تاریخ انسانی میں عظیم ترین طبیب کے طور پر جانا جاتا ہے۔ الراضی نے تاریخ میں پہلی مرتبہ خسرہ اور چیچک کے درمیان فرق واضح کیا۔میڈیکل ایتھکس کا خیال متعارف کروایا۔علم طب کے اس ستارے کو بخارا کے ایک امیر نے ایک کتاب پر اختلافات کی صورت میں حکم دیا کہ اس کتاب کو الراضی کے سر پر اسوقت تک مارا جائے جب تک کتاب یاسر دونوں میں سے کوئی ایک پھٹ نہ جائے۔اس سزا کی وجہ سے سر پر چوٹ لگنے سے آپ کی بینائی ضائع ہو گئی اور مرتے دم تک اس طبیب نے معذوری کی زندگی گزاری۔آپ کو علم تاریخ کے بانی کے طور پر جانا جاتا ہے آپ کے ساتھ کوئی ناروا سلوک ہونے کی تو کوئی شہادت نہیں ملتی لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ انیسویں صدی عیسوی تک اس شخص کو اسلامی دنیا میں کوئی جانتا تک نہیں تھا اور نہ اس کے نام سے کوئی واقف تھا دنیا کو ابن خلدون کی تعلیمات سے آگاہ کرنے میں مغربی محقیقین کا ہاتھ ہے۔ الغرض یہ کہ آج کے اس جدید دور میں ہم جن ایجادات اور تحقیقات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اسے ہم تک پہنچانے میں کئی مفکرین، دانشور اور سائنسدانوں نے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔