counter easy hit

پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب

پاکستان میں حکمران نعرے تو بہت لگاتے ہیں مگر ان پر عمل کرانا ایک مشکل عمل نظر آتا ہے جیسے ہمارے ہاں آج کل پڑھو پنجاب کا نعرہ بھی قوم کے لئے ایک مزاق بن چکا ہے پنجاب میں سرکاری سکولوں کی حالت دیکھو تو ترس آ تا ہے وہاں بیٹھے اساتذہ کو تو تنخواہ سے غرض ہے طالب علم سکول آ ئیں نہ آئیں وہ سکول میں بیٹھ کر ٹائم پاس کرتے ہیں اور گھر واپس آ جاتے ان کے بر عکس پرایئویٹ سیکٹر میں انڈر میٹرک استانیاں اور سکول میں طلبہ کی تعداد تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی آ کر لیا وجہ میں تو اس پر بے شمار کالم لکھے گذشتہ دنوں مجھے سرکاری سکولوں میں داخلہ مہم کا ڈرامہ دیکھنے کو ملا جس کے لئے ایک تقرین کا انعقاد کیا جاتا ہے خرچہ کہاں سے آ تا ہے وہاں جعلی دس بارہ بجے داخل کر کے سب اچکا کی رپورٹ دی جاتی ہے۔

میں ڈھوک دند سکول میں اسی تقریب کے سلسلے میں گیا جہاں مہمان خصوصی مسلم لیگ ن کے رہنما ملک اسلم سیتھی تھے اور چیف ایجوکیشن آفیسر ڈاکٹر مرتضےٰ انجم بھی مہمانوں میں شامل تھے جنہوں نے اپنے خطاب میں یہ تک کہا کہ ان کے پاس تعلیم کے بارے میں بڑے پروگرام ہیں بچہ چاہے کیسا ہی کیوں نہ ہو سرکاری سکولوں میں جادو کی وہ چھڑی موجود ہے جو اس کو بہتر تعلیم دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے بے شک وہ جس سکول میں کھڑے تھے اسے دیکھ کر کوئی شخص یہ نہیں کہے گا کہ یہ شخص غلط کیہ رہا ہے مگر سرکاری سکولوں میں بیٹھے اساتذہ اور ان کے ہیڈ جن کو دیکھ کر لگتا ہے کہ دماغ نام کی کوئی چیز ان کے پاس موجود ہی نہیں مجھے خود ایک سرکاری سکول سے اس وقت پالا پڑا جب میری بیٹی مڈل سے 9 کلاس میں آئی تو اس نے سائنس مضامیں رکھنے کی خواہش کی قارئین میں یہاں ایک بات لکھتا چلوں کہ سرکاری سکولوں میں ہیڈ مسٹریس کسی بچے کو زبردستی سکول سے نہ نکال سکتی ہے اور نہ ہی اس پر تشدد کر نے کا کوئی حق رکھتی ہے کیونکہ حکومت پنجاب بچوں کو سرکاری سکولوں میں لانے کہ لئے اربوں روپے لگا رہی ہے۔

مجھے گورنمنٹ ہائیر سکینڈری سکول بوچھال کلاں جانے کا اتفاق ہوا چونکہ وہاں لیڈی ٹیچر ہوتی ہیں میں نے مناسب سمجھا کہ اپنی ہمشیرہ کو ساتھ لے جائوں اور اسے ہی اندر بھیج کر میں باہر گاڑی میں بیٹھا رہا اس نے ہیڈ میسٹریس سے درخواست کی کہ بچی کو سائنس کلاس میں بیتھا دیں مگر اس کے رویہ کو دیکھ کر وہ باہر آ ئی اور مجھے خود بات کرنے کو کہا چونکہ ہیڈ مسٹریس سے اپنے بھی اچھے تعلقات تھے میں سکول میں گیا تو ہیڈ مسٹریس صاحبہ پہلے تو خوش اخلاقی سے پیش آئیں پھر اچانک جب میں نے درخواست کی کہ میری بیٹی کی خواہش ہے کہ اسے سائنس مضامین پڑھنے کی اجازت دی جائے تو اس کے تیور بدل گئے اور مجھے مخاطب کر کے کہا کہ اگر بیٹی کو پڑھانا ہے تو میری مرضی چلیگی ورنہ اپنی بچیوں کو لو اور سکول سے باہر ہو جائو میں پریشان ہوا کہ اچانک اسے کیا ہو گیا ہے میں نے اسے کہا کہ میری بچی کو بلاو تاکہ میں اسے ساتھ لے جائوں مگر میری بہن نے یہ کہا کہ چھوڑ دو ہو سکتا ہے تھوڑی دیر بعد اسے خیال آ جائے میں وہاں سے چلا آ یا وزیر اعلیٰ پنجاب کے نعرے کہاں ہیں اسی لئے سرکاری سکول ویران ہیں میں کہیں باہر گیا جب شام کو واپس آیا تو پتا چلا کہ اس نے میری بیٹیوں کو دھکے مار کر سکول سے نکال دیا ہے میں نے چیف آفیسر سے رابطہ کی کوشش کی مگر بے سود میں نے ملک اسلم سیتھی سے رابطہ کیا جنہوں نے پہلے تو مجھے تسلی دی کہ وہ ابھی سی ای او سے بات کرتے ہیں۔

جب تھوڑی دیر بعد میں نے ٹیلی فون کی کوشش کی تو ان کا رویہ بھی ان لوگوں سے کم نہ تھا انہوں نے ٹیلیفوں اٹینڈ کرنے کی زحمت ہی گوارہ نہ کی میں نے سی ای او چکوال سمیت وزیر اعلیٰ پنجاب کو درخواست دی مگر پہلی درخواست جو سی ای او کو میں نے بائی ہینڈ دی تھی گم ہو گئیمیں نے صحافتی حلقوں سے رابطہ کیا اور انہیں مدد کی درخواست کیاسی دوران میرے ایک دوست نے مجھے بلایا جو میرے نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے سیتھی ہائوس پہنچایا جہاں صوبائی وزیر ملک تنویر اسلم جو میرے اچھے دوست بھی ہیںنے سی ای او چکوال کو مسئلہ حل کرانے کی ہدایت کی اس دوران ایک ہفتہ گزر چکا ہے میری بیٹیاں سکول نہیں گئیں دلچسپ بات یہ ہے سیتھی ہائوس سمیت میں جہاں بھی گیا سب سے پہلے مجھے ہیہ کہا گیا کہ وہ تو پاگل ہے تم نے اس سے کیوں جھگڑا بنا رکھا ہے صبح جب میں ایجوکیشن آفس چکوال پہنچا تو باہر کھڑے ایک آدمی نے مجھے کہا کہ یار کس پاگل عورت سے تم الجھ پڑے میں اندر گیا جہاں سی ای او چکوال کے دفتر میں پہنچا تو وہاں بھی جو مجھے سننے کو ملا وہ یہی الفاظ تھے۔

انہوں نے ڈی ای او ایلمنٹری کے پاس بھیجا تو مجھے یو ں لگا کہ یا تو ان کے دائرہ اختیار میں کچھ نہیں یا پھر یہ لوگ اس سے ڈرتے ہیں ان کا رویہ دیکھ کر چھوٹے میاں اور بڑے میاں والی بات زہین میں آئی انہوں نے صوبائی وزیر کی ہدایت کی بھی پرواہ نہیں کی میں باہر نکلا تو خوب ہنسااور کہ سرکاری سکولوں میں تو ایسے لوگ ہیں ہی ان کے آفیسر،،،،،؟ بحرحال میں تو جب میں یہالفاظ لکھ رہا ہوں میری بیٹیوں کا مستقبل دائو پر لگا کر یہ پربھان منتری نہ جانے کیوں اور کیسا تماشہ دیکھ رہے ہیں ہم شرافت سے ان لوگوں کا منہ دیکھ رہے ہیں ویسے بھی اس دنیا میں یا تو پاگل کامیاب ہے اور یا وہ شخص جو بدمعاش ہو اب میں سوچ رہا ہوں کہ ہمیں کیا بننا ہے میں نام کے شریفوں سے بھی اپیل کروں گا کہ وہ قوم پر اخسان کریں اور سرکاری سکولوں سے نیم پاگل لوگوں کو باہر کرئیں تاکہ قوم کی نونہالوں کا مستقبل تباہ ہونے سے بچ جائے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website