اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)حضور ﷺ خاتم النبین ہیں اور بات کا اعلان خود رب تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب جو قیامت تک کیلئے انسانیت کی ہدایت و رہنمائی کیلئے نبی کریمﷺ پر اتار اس میں کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں اپنے انبیا و رسل کو اتارا تاکہ وہ اپنی اپنی قوم کی ہدایت اور رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیتے ہوئے انہیں شیطان کے چنگل سے بچائیں ۔ نبی کریمﷺ کو رب تعالیٰ نے قیامت تک کے انسان و جن کیلئے نمونہ حیات بنا کر بھیجا۔ انسانیت کو بھٹکانے کیلئے شیطان ازل سے برسرپیکار ہے اور مختلف لبادوں میں معصوم اور بھولے بھالے انسانوں کو بھٹکانے کا سامان کرتا رہتا ہے۔ تاریخ انسانی میں کئی ایسے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے حیرت انگیز صلاحیتوں سے دنیا کو حیران کئے رکھا۔ شداد کو ہی لے لیجئے ۔ اس بدبخت نے دنیا میں رب تعالیٰ کی جنت کے مقابلے میں جنت تخلیق کر ڈالی تھی۔ اس جنت کے باغات ہوا میں معلق رہتے تھے جو آج تک سوچنے پر انسانی عقل کو خیرہ کر دیتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی زندگی میں ہی جھوٹے نبوت کے دعویدار سامنے آنے لگ گئے تھے ۔ ان میں سے کذابوں کا باپ مسلیمہ کذاب ، اسود عسنی، سجاح بن حارث کے نام بھی شامل ہیں۔ حدیث شریف میں آیا ہے، رسول اللہ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میری امت میں تیس جھوٹے اور دجال ایسے پیدا ہوں گے جو نبوت و رسالت کا دعویٰ کریں گے، حالانکہ میں خاتم النبین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘۔یہ حدیث ترمذی اور ابو داؤد ؒ میں موجود ہے، اسی لیے تمام مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو بھی نبوت و رسالت کا دعویٰ کرے گا وہ کذاب اور دجال ہوگا اور اس کے پیرو کار دجال اور کذاب کے پیرو کار ہوں گے او ران کے اس عقیدہ کی بنیاد اس گراں قدر ہستی کے فرمان پر ہے جن کے متعلقہ اصدق القائلین کا ارشاد ہے: کہ محمد اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مرضی و خواہش سے نہیں بولتے، بلکہ ان کے فرمودات وحی الہٰی کے تابع ہوتے ہیں۔ (سورة النجم)۔ یہاں ہم حضور اکرمﷺ کی حدیث کے مطابق تیس کذابوں میں سے ایک کا تذکرہ کرنے جا رہے ہیں جس نے اپنے استدراج اور شعبدوں سے نہ صرف بڑی تعداد میں بھولے بھالے لوگوںکو بھٹکایا بلکہ اس کے شعبدے اس درجہ کمال پر پہنچ گئے تھے کہ یہ اپنی مخفی طاقتوں کے ذریعے نہ صرف بندھی ہوئی زنجیروں سے آزاد ہو گیا بلکہ ہلاکت خیز نیزوں کے وار بھی اس پر کارگر ثابت نہ ہوئے ۔ اس کا نام حارث کذاب تھا ۔جو شخص بھوکا رہے، کم سوئے، کم بولے اور نفس کشی اختیار کرلے اس سے بعض دفعہ ایسے افعال صادر ہوجاتے ہیں جو دوسروں سے نہیں ہوسکتے، ایسے لوگ اہل اللہ میں سے ہوں تو ان کے ایسے فعل کو کرامت کہتے ہیں اور اگر اہل کفر یا گمراہ ہوں تو ان کے ایسے فعل کو کہتے ہیں۔ حارث کذاب بھی اپنی ریاضت ومجاہدات اور نفس کشی کی بدولت ایسے افعال کرتا تھا، مثلاً یہ لوگوں کو کہتا کہ آؤ میں تمہیں دمشق سے فرشتوں کو جاتے ہوئے دکھاؤں چنانچہ حاضرین محسوس کرتے کہ نہایت حسین وجمیل فرشتے بصورت انسان گھوڑوں پر سوار جارہے ہیں۔ یہ لوگوں کو موسم سرما میں گرمیوں کے اور گرمیوں میں موسم سرما کے پھل کھلاتا۔ اس کے گمراہ کن افعال اور شعبدوں کی شہرت آس پاس پھیل گئی اور اس بدبخت نے بھی نبی ہونے کا دعویٰ کردیا۔ خلق خدا کو گمراہ ہوتے دیکھ کر ایک دمشقی رئیس قاسم بن بخیرہ اس کے پاس آئے اور دریافت کیا کہ تم کس چیز کے دعویدار ہو، حارث بولا میں اللہ کا نبی ہوں۔ اس پر قاسم نے کہا اے دشمن خدا تو بالکل جھوٹا ہے۔ حضرت خاتم المرسلینؐ کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوچکا ہے۔ یہ کہہ کر قاسم سیدھا خلیفہ وقت عبدالمالک بن مروان کے پاس گئے اور سارا ماجرا سنادیا۔عبدالمالک نے حارث کو گرفتار کرکے دربار میں پیش کرنے کا حکم دیا لیکن اس دوران وہ بیت المقدس کی جانب فرار ہوچکا تھا اور وہاں پہنچ کر اس نے اعلانیہ اپنی جھوٹی نبوت کا آغاز کردیا۔ بصرہ کے ایک شخص نے اس سے ملاقات کی اور بہت دیر تک تبادلہ خیال کے بعدسمجھ گئے کہ یہ جھوٹا نبی ہے۔ تاہم اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے اس کا اعتماد حاصل کیا اور کچھ عرصے بعد خلیفہ کے دربار میں پہنچ کر سارا قصہ بیان کرنے کے بعد حارث کی گرفتاری کے لیے 20سپاہی لے کر پھر بیت المقدس پہنچ گئے اور موقع ملتے ہی حارث کو زنجیروں میں باندھ لیا۔ بیت المقدس سے بصرہ تک راستے میں حارث نے شیطانی طاقتوں کے ذریعے 3سے زائد بار اپنی زنجیریں کھلوائیں مگر یہ شخص جس نے گرفتار کیا تھا وہ کسی طور مرعوب نہیں ہوئے اور جھوٹے نبی کو خلیفہ کے دربار میں پیش کردیا۔ خلیفہ کے دربار میں بھی حارث نبی ہونے کا دعویدار رہا جس پر خلیفہ نے محافظ کو نیزہ مارنے کا اشارہ کیا لیکن پہلے نیزہ کے وار نے اس کے جسم پر کوئی اثر نہیں کیا جس پر اس کے حواریوں کی بانچھیں کھل گئیں۔ پھر خلیفہ عبدالمالک نے محافظ سے کہا کہ بسم اللہ پڑھ کر نیزہ مارو۔ اس نے بسم اللہ پڑھ کر نیزہ مارا تو وہ حارث کے جسم کے پار ہوگیا اور یوں یہ جھوٹا نبی بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔حارث کی شیطانی کرامات زنجیروں کے کھلنے اور فرشتوں کے نظر آنے سے متعلق علامہ ابن تیمیہ نے اپنی کتاب’’ الفرقان بین اولیاء الرحمن واولیاء الشیطان ‘‘ میں لکھا ہے کہ حارث کی زنجیریں کھولنے والا اس کا کوئی موکل یا شیطان تھا اور فرشتوں کو جو گھوڑوں پر سوار دکھایا وہ فرشتے نہیں جنات تھے۔