لاہور (ویب ڈیسک) ایرانی لشکر نے دلی کو تاراج کردیاہے،خون سے تر شاہراہ سےگزرتے ہوئے فاتح نادرشاہ افشار شاہی محل میں داخل ہوتے ہیں،جہاں محمد شاہ رنگیلا اُن کا شاندار استقبال کرتے ہیں،فاتح ہندوستان اس رنگ رنگیلے منظرنامے پر حیران رہ جاتاہے،دونوں تاریخی تخت ِ طائوس پر ہم نشیں ہیں،پھر حسبِ روایت فاتح مفتوح سے نامور کالم نگار اجمل خٹک کثر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ایک کے بعد دوسری ،دوسری کے بعدتیسری شرط منواتے ہیں،رضا وتسلیم کا ہر امر مفتوح کی ذلت وتحقیر کا باعث بنتا ہے۔وہ مگر مطمئن ہیں کہ خاندانی وقار کی علامت ’کوہ نور‘ہیرا ایرانی فاتح کے ہاتھ لگناممکن نہیں،یکایک روئے سخن شکست فاش سے بھی زیادہ اذیت ناک محسوس ہونے لگتی ہے ،نادرشاہ کے حکمت افروز یہ الفاظ زہرلگنے لگتےہیں ’’جس طرح عورتیں دوپٹہ بدل کر آپس میں بہنیں بن جاتی ہیں، کیوں نہ ہم دونوں بھی پگڑی بدل کر آپس میں بھائی بن جائیں‘‘محمد شاہ نے یہ ہیرا پگڑی میں چھپارکھا ہے،لیکن کیا کیا جائے، پجاری اسی دربارکے ہیں جو چڑھتے سورج کے روبروآچکےہیں،فی زمانہ جسے ہارس ٹریڈنگ کہتے ہیں وہ ہوچکی ہے، نووارد ہر راز سے آگاہ ہے، یہ مغل امراہی ہیں جنہوں نے نادرشاہ کو دہلی پر حملے کی صورت میں اپنی وفاداری کا یقین دلایاتھا۔نادرشاہ کو مخاطب کی رضا سے سروکارہی نہ تھااور خود ہی اُس کی پگڑی اُتارکر سر پر رکھ لی۔اگلا وار کاری ترتھا،اُس نے معزول بادشاہ سے اُسکی بیٹی کا رشتہ اپنے بیٹے کیلئے ’’طلب‘‘کرلیا۔نکاح کے وقت ایک نمک خوار محمد شاہ کوتنہائی میں بتاتاہےکہ سبکی تو کافی ہوچکی،کیوں نہ نادرشاہ سےاُس کا خاندانی شجرہ نسب پوچھ لیا جائےتاکہ اس طرح ’چرواہے ‘ کے اس بیٹے کو اوقات یاد دلائی جاسکے۔ جب نکاح کی تقریب شروع ہوئی تو رواج کے مطابق دلہن کے والد نے اپنا نام لکھوا کر خاندانی نسب نامے کو اکبر اعظم سے ظہیر الدین بابر تک، بابر سے امیر تیمور تک اور امیر تیمور سے چنگیز خان تک بیان کردیا۔ جب دولہا کا حسب نسب پوچھا گیا تو نادر شاہ نے ولدیت میں اپنا نام لکھوایا پھر تاحدِ نظر بھرےپنڈال میں عالمِ سرشاری میں کھڑا ہو گیا اور تلوار سونت کر بولا ’’ لکھو! ابن شمشیر، بن شمشیر، بن شمشیر ،بن شمشیر اور جہاں تک چاہو لکھتے چلے جاؤ۔‘‘یہ اس امر کا اعلان تھا کہ طاقت کے سامنے کسی شجرہ نسب ،کسی دستور کی کوئی وقعت نہیں ہوتی ۔خیر ہم یہاں سینٹ کے انتخابات کے حوالے سے محمد شاہ رنگیلے کےاُن لوٹوںکی مثال دینا چاہتے تھے جنہوں نے نادرشاہ کو کندھا فراہم کیا تھا،لوٹوں کی اصطلاح یوں تو ہارس ٹریڈنگ کی پرانی اصطلاح سے مستعارہے لیکن کہا جا تا ہے کہ یہ اعزاز سب سےپہلے ایک مسلم لیگی کوحاصل ہوا، ڈاکٹر محمد عالم جو بڑے مسلم لیگی تھے.1930میں لیگ چھوڑ کر اتحاد المسلمین میں شامل ہوگئے. اس کے بعد کانگریس میں چلے گئے اور پھر مسلم لیگ سے آملے۔کم مدت میں اتنی پارٹیاں بدلنے پر مولانا ظفرعلی خان نے انھیں لوٹے کا’تاریخی‘ خطاب دیا ۔ ہمارے سامنےنئے پاکستان کا جو چہرہ ہے،اس میں اپوزیشن کسی ابن شمشیر سے تونہیں البتہ لوٹوں سے خوف زدہ نظر آتی ہے،جیسا کہ جناب حاصل بزنجو کا کہنا ہے’’ میں ڈرنے والا آدمی نہیں ہوں لیکن سینٹ میں یقینی جیت کے باوجود نہ جانے کیوں مجھے جہانگیر ترین سے ڈر لگ رہا ہے۔پیپلز پارٹی پارلیمانی پارٹی اجلاس کےبعد میڈیا سےگفتگو میں شیری رحمان کاکہنایہ تھا کہ ہارس ٹریڈنگ کی باتیں سب نےسنی ہیں، وزیراعظم نے بھی کہا ہےکہ اپوزیشن کو شکست دیں گے، اپوزیشن کی اکثریت ہے، ہارس ٹریڈنگ کےسوا کیسے شکست دی جاسکتی ہے؟دیگر باتوں سے قطع نظرسوال مگر یہ ہےکہ ڈرنے والوں کے سامنے جو خوفناک نقشہ مشہود ہے اس میں رنگ بھرنے والوں میں اپوزیشن کا کتنا حصہ ہے؟کیاایک دور میں پیپلزپارٹی اورایک دور میں مسلم لیگ اس روزگار میں یکتا نہ تھی،اب جب دوسرے اس فن میں جوہردکھارہے ہیں ،تو رونا کیسا؟کیا اپوزیشن کی جانب سے ہارس ٹریڈنگ کا واویلا ان کے نظریاتی ضعف کو ظاہر نہیں کرتا،کہ انہوں نے ایسے لوگوں کو ایوان بالا کا رکن بنایاہےجن پر انہیں اعتبارہی نہیں کہ وہ کب بِک جائیں۔کم از کم کیا اب اپوزیشن اس امر کو پابند عہد وبرہان بناسکتی ہے کہ آئندہ لوٹوں کو اُن کے اصل مقام استنجاخانے سے لا اُٹھانے سے وہ توبہ تائب ہوجائے گی ؟ان تمام باتوں کے باوصف تاہم یہ چیئرمین سینٹ کا انتخاب ہی ہے جس سے اپوزیشن کی درست پوزیشن کا تعین ہوسکے گا۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی آزمائش پیپلزپارٹی کو لاحق ہے، اس جماعت نےجب جناب رضا ربانی پرصادق سنجرانی صاحب کو فوقیت دی تھی تو ظاہر ہے کسی سے کمٹمنٹ کے تحت ہی ایسا کیا تھا،اسی سبب سوال کیا جاتاہےکہ جن سے کمٹمنٹ کی گئی تھی کیا پیپلز پارٹی اس کمٹمنٹ کو بالائے طاق رکھ پائے گی؟یا سارا نزلہ کسی جہاز والے پر اُتار دیا جائیگا۔