.علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ میں روزانہ صبح تلاوت قرآن کیا کرتا تھا.. میرے والد صاحب شیخ نور محمد اکثر میرے پاس سے گزرتے تھے.. ایک دن رک کر مجھے فرمانے لگے:” اقبال کسی دن تمہیں بتائوں گا کہ قرآن کیسے پڑھتے ہیں؟ “اتنا کہہ کر وہ آگے بڑھ گئے.. اور میں حیران بیٹھا سوچنے لگا کہ میں بھی تو قرآن پڑھ رھا ہوں..کچھ دن بعد میں اسی طرح تلاوت کررہا تھا کہ میرے والد صاحب میرے پاس رکے.. جب میں خاموش ہوا تو مجھے کہنے لگے:” جب قرآن پڑھو تو یوں سمجھو جیسے یہ اللہ نے صرف تمہارے لیے بھیجا ھے.. اور اللہ پاک براہ راست تمہارے ساتھ خطاب کررہا ہے.. اور تمہیں اپنی زبان سے احکامات دے رہا ہے. جب اس کیفیت کے ساتھ قرآن پڑھو گے کہ قرآن کا مخاطب اللہ ہے تو پھر تمہیں اس کی لذت ملے گی.”اقبال کہتے ہیں کہ اس دن کے بعد قرآن کی جو لذت اور جو سرور مجھے ملا وہ اس سے پہلے نہیں ملا تھا.. اور میں قرآن کو اس طرح پڑھتا ہوں کہ جیسے اللہ پاک میرے سامنے بیٹھے ہیں اور مجھے ہدایات دے رہے ہیں۔۔۔ دوسری جانب میں نے علامہ اقبالؒ کے والد ماجد شیخ نور محمد صاحب کو پہلی مرتبہ 1911ء میں دیکھا تھا جب وہ رواز ہوسٹل میں علامہ کی نظم ’’ شکوہ‘‘ سننے کے لیے تشریف لائے تھے۔ ان کا انتقال 1930ء میں سیالکوٹ میں ہوا۔ علامہ اقبالؒ ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ وہ فارسی زبان کی اچھی خاصی استعداد رکھتے تھے اور علامہ کی مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ کو بآسانی سمجھ لیتے تھے۔ ایک مرتبہ علامہ اقبالؒ نے دوران گفتگو فرمایا تھا کہ میں نے والد صاحب کی سہولت کے لیے مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ کو جلی قلم سے لکھا ہے تاکہ وہ پڑھنے میں کوئی دقت محسوس نہ کریں۔ وہ انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں اکثر علامہ کی نظمیں سننے کی غرض سے تشریف لاتے تھے۔ چنانچہ انجمن کی مختصر تاریخ میں لکھا ہے: 1900ء میں انجمن کے سٹیج پر شاعر اسلام علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبالؒ کا طلوع ہوا اور آپ نے ایک نہایت رقت آمیز نظم موسومہ ’’نالہ یتیم‘‘ اپنے مخصوص رنگ اور درد انگیز آواز میں پڑھی۔ اس وقت سامعین کے تاثر کی حالت احاطہ تحریر میں نہیں آ سکتی۔ ہر دیدہ اشک ریز اور ہر قلب مضطر تھا۔ وجدان کی یہ کیفیت تھی کہ جب منشی عبدالعزیز مرحوم (پیسہ اخبار) نے ممدوح کو نظم کے چند بند پڑھنے کے بعد اس غرض سے روک دیا کہ نظم مذکور کی مطبوعہ کاپیاں، جن کی تعداد کئی صد تھی، فروخت کر لی جائیں تو یہ تمام جلدیں آناً فاناً فروخت ہو گئیں لیکن مانگ بدستور تھی۔