لندن (ویب ڈیسک) مشہور برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہاہے کہ پاکستان کی اوپن مارکیٹ میں ڈالر نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے ،اس کی بنیادی وجہ اس کی طلب میں اضافہ اور رسد میں کمی ہے ،خراب ہوتی معاشی صورتحال لوگوں کو ڈالرز ذخیرہ کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں حکومتی یقین دہانیوں کے باوجود رواں ہفتے پاکستان کی اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی قدر 148 روپے کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی جس کے بعد حکومت نے ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کے خلاف ’بھرپور‘ کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے۔بی بی سی کے مطابق رپورٹ میں چند بنیادی نکات جیسا کہ پاکستان میں ڈالر کی قدر متعین کرنے کا طریقہِ کار، موجودہ صورتحال کے پیچھے کارفرما عوامل اور اس کے معیشت اور عام آدمی پر اثرات، ڈالر کی ذخیرہ اندوزی، اور اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے حکومتی ردِعمل کا جائزہ لیا گیا ہے۔مالیاتی امور پر لکھنے والے صحافی خرم حسین نے کہا کہ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں ڈالر کی قیمت اوپن مارکیٹ متعین کرتی ہے اور یہ اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ کسی بھی ملک کی معیشت میں کتنے ڈالرز دستیاب ہیں اور ملک میں ان کی مانگ کتنی ہے۔انھوں نے بتایا کہ ڈالر کی قدر اس وقت بڑھ جاتی ہے جب کسی معیشت میں اس کی مانگ بڑھتی ہے مگر دوسری جانب رسد گھٹ جاتی ہے۔پاکستان میں معاملہ تھوڑا مختلف ہے اور یہاں ڈالر کی قدر کا تعین دو طرح ہوتا ہے۔رپورٹ کے مطابق اول انٹر بینک مارکیٹ جہاں بینک آپس میں ڈالر کی بڑے پیمانے پر خرید و فروخت کرتے ہیں اور یہاں کی قیمت کو ڈالر کا انٹر بینک ریٹ کہا جاتا ہے جبکہ دوسری اوپن مارکیٹ ہے جہاں سے عام لوگوں کی ڈالر کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔خرم حسین کے مطابق انٹر بینک میں فی الحال ڈالر کا ریٹ مستحکم ہے اور یہاں ذخیرہ اندوزی کی شکایت نہیں ہے جبکہ اصل مسئلہ اوپن مارکیٹ میں ہے جہاں ڈیلر حضرات یہ بتا رہے ہیں کہ ڈالر کی طلب بڑھی ہے مگر رسد نہیں ہے کیوں کے گاہک خریدنے آ رہے بیچ کوئی نہیں رہا۔انھوں نے کہا کہ اوپن مارکیٹ میں بتایا جا رہا ہے کہ اس سلسلے میں کافی افراتفری ہے اور لوگ ڈالر خرید کر گھر میں رکھ رہے ہیں یہ سوچتے ہوئے کہ آگے چل کر روپے کی قدر میں مزید کمی ہو گی۔ماہر معاشیات اور اکنامک ایڈوائزی کمیٹی کے رکن ڈاکٹر اشفاق حسن کے مطابق ترقی پذیر ممالک جیسا کے پاکستان جہاں مارکیٹ چھوٹی ہے اور روزانہ ڈالر کی ٹریڈ صرف چھ سے سات ملین ڈالر ہے وہاں حکومتوں کو اوپن مارکیٹ کے معاملات میں دخل اندازی کرنا پڑتی ہے۔چھوٹے حجم کی مارکیٹ میں اگر ڈالر کی قدر کا تعین اوپن مارکیٹ پر چھوڑ دیا جائے تو لوگ ڈالر کے ساتھ کھلواڑ شروع کر دیتے ہیں اور مصنوعی صورتحال تخلیق کر کے ڈالر کی قدر کر اثر انداز ہونا شروع کر دیتے ہیں اور اس موقع پر سٹیٹ بینک کو مداخلت کرنی پڑتی ہے تاکہ کسی بھی ابنارمل صورتحال کا بندوبست کیا جائے تاکہ ایکسچینج ریٹ پر کسی قسم کا دباؤ نہ پڑے۔ڈاکٹر اشفاق حسن کیمطابق صورتحال کے اس نہج پر پہنچنے کی سب سے بڑی وجہ آئی ایم ایف ہے۔حکومت یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس قرض کے حصول کے لیے جانا ہے اور آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کا ایکسچینج ریٹ کافی خراب ہے اور قرضے کے حصول سے قبل اس کو درست کیا جانا ضروری ہے۔میرے خیال میں یقیناًآئی ایم ایف کی طرف سے کوئی نہ کوئی ٹارگٹ دیا گیا ہو گا کہ روپے کی قدر کیا ہونی چاہیے