لاہور (ویب ڈیسک) روزانہ صبح آنکھ کھلتے ہی واٹس ایپ پر میسجز کی اتنی بھرمار ہوتی ہے کہ ضروری اور کام کے میسجز محفوظ کرنے کے بعد باقی سب ڈیلیٹ کر کے ہی سیل فون کی میموری بچائی جا سکتی ہے۔ آج صبح بھی کچھ اسی طرح ہوا کہ ایک خاتون اعلیٰ سرکاری افسر نامور کالم نگار آصف عفان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ کی طرف سے دو ویڈیو کلپ موصول ہوئے۔ ایک ویڈیو کلپ میں انتہائی تیز طوفان اور موسلا دھار بارش کی وجہ سے پھلدار درختوں سے بھرا باغ اجڑتا ہوا صاف دکھائی دے رہا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے پھلوں سے لدے درخت اجڑے گلستاں کا منظر پیش کرنے لگے۔ اگلے سین میں گندم کی کھڑی فصلوں پر برسنے والی بارش اور آندھی دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا بمباری یا سنگباری کا کوئی منظر ہو۔دوسرا ویڈیو کلپ معروف مذہبی سکالر مولانا طارق جمیل کا تھا‘ جس میں وہ بیان کر رہے تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے ہم کلام ہوتے ہوئے پوچھا کہ یا رب جب تو ناراض ہوتا ہے تو ہمیں کیسے پتا چلے کہ تو ہم سے ناراض ہے؟ پروردگار نے نے فرمایا: جب میں ناراض ہوتا ہوں تو نکمّوں‘ بیوقوفوں اور نااہلوں کو حکومت اور بخیلوں کو پیسہ دے دیتا ہوںاور پھر بے موسمی اور بے وقت بارشیں برساتا ہوں۔ یہ دونوں کلپ دیکھ کر کافی دیر سوچتا رہا کہ بے موسمی بارشیں‘ فصلوںکی تباہی اور ماضی کے سبھی حکمرانوں سے لے کر موجودہ حکمرانوں تک گرانی‘ بدحالی‘ بے وفائی‘ مہنگائی کی تباہی کے سواعوام کے حصے میں کچھ نہیں آیا۔ یا اﷲ رحم… یاخدایا رحم… حکمرانوں سے لے کر بدحالی اور بے برکتی تک یہ سب تیری ناراضی اور خفگی کے چلتے پھرتے نمونے ہیں تو پھر کونسی اصلاحات‘ کونسے اقدامات‘ کیسی پالیسیاں… اور کونسی گورننس۔ جب ہمارا رب ہی ہم سے ناراض ہے تو پھر تمہاری تدبیریں اور تحریکیں کیا حیثیت رکھتی ہے؟ نواز شریف سے لے کر بے نظیر تک‘ مشرف سے لے کر شوکت عزیز تک‘ زرداری سے لے کر موجودہ حکمرانوں تک یہ سبھی ہمارے اعمالوں کی سزائیں اور عذاب ہے‘ جو ہمارے رب نے حکمرانوں کی صورت میں اس قوم پر نازل کیا۔ جن سے نجات صرف اعمال کی درستگی اور توبہ کی قبولیت کے بعد ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ بے شک یہ مقامِ توبہ ہے… مقامِ استغفار ہے۔ میں ایک بندئہ ناچیز ہوں کوئی سکالر نہیں۔اس موضوع پر مزید لمبی چوڑی بات کرنا مناسب نہیں ‘کیونکہ ”بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی‘‘۔ ان ویڈیو کلپس کو بطور استعارہ آپ سے شیئر کرنے کا مقصد دعوتِ فکر اور صرف اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ حکمرانوں سے لے کر وطنِ عزیز کے عوام تک یہ دعوتِ عام ہے سبھی کے لیے اور اشارہ ہے صرف سمجھنے والوں کے لیے۔ اب چلتے ہیں ایک تازہ ترین خبر کی طرف جس میں عالمی جریدہ ”ٹائم‘‘ نے ہمارے وزیراعظم عمران خان کو 2019ء کی متاثر کن عالمی شخصیا ت کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے بارے میں لکھا ہے کہ پاکستان انتہائی نازک موڑ سے گزر رہا ہے اور اس کو سنبھالنے والا ”راک سٹار‘‘ بننے کے قریب ہے۔ عمران خان نے 1992ء میں ورلڈ کپ جیتنے والی کرکٹ ٹیم کی کپتانی کی تھی۔ لاہور میں عالمی معیار کا کینسر ہسپتال بنایا۔ اعلیٰ معیار کی یونیورسٹی ایسے بچوں کے لیے بنائی جو کبھی اس کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ وہ بائیس سال قبل سیاست میں آئے ‘جو پاکستان میں گھناؤنا کاروبار ہے۔ اب وہ ایک غریب قوم کے وزیراعظم ہیں جو اپنا بل بھی ادا نہیں کر سکتی۔ چین اور خلیجی ممالک جیسے امیر پڑوسیوں پر انحصار کرتی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ عمران خان اعتدال پسندوں کے قریب ہیں ‘مگر وہ اپنے مشیروں کا چناؤ صحیح طرح نہیں کرتے۔ واضح موقف رکھنے والے عمران خان سخت بھی ہو سکتے ہیں اور حساب کتاب سے چلنے والے بھی‘ تاہم وہ نوجوانوں اور بوڑھوں میں وسیع امید پیدا کرتے ہیں کہ پاکستان کو بدل دیں گے۔ وہ جنوبی ایشیا کو مسلسل تنازعہ کا شکار ریاست سے امن کا سمندر بنانے میں مدد کر سکتے ہیں۔ ٹائم میگزین کی سالانہ فہرست میں دیگر عالمی شخصیات بھی شامل ہیں‘ جس میں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا‘ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ‘ پوپ فرانسس‘ امریکی کانگرس کے الیگزینڈرا اوکاسیو کورٹیز‘ چینی صدر شی جن پنگ‘ ابوظہبی کے ولی عہد زید النہیان‘ ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد اوراسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو سمیت دیگر کئی شخصیات شامل ہیں۔ ہمارے وزیراعظم کا نام عالمی متاثر کن شخصیات میں شامل ہونا یقینا باعث فخر ہے۔ یہ خبر پڑھ کر نجانے کیوں میرے ذہن میں یہ خیال آن ٹپکا کہ کاش کوئی جریدہ‘ اخبار‘ ادارہ یا سروے یہ بھی بتائے کہ متاثر کن شخصیات کا ٹائٹل حاصل کرنے والے حکمرانوں کے عوام کی حالتِ زار کیا ہے؟ ہمارے متاثر کن وزیراعظم کے عوام ایک متاثرہ عوام بن کر رہ چکے ہیں۔ ان کی پالیسیوں‘ اقدامات اور طرزِ حکمرانی سے متاثرہ عوام کن حالوں کو پہنچ چکے ہیں؟ عرصۂ دراز سے منزل کی تلاش میں بھٹکتے بدحالی کے شکار عوام کا اقوامِ عالم میں کون سا نمبر ہے؟ کونسا درجہ ہے؟ ڈکیتی زدہ‘ مضروب‘ معتوب‘ مغلوب‘ مقتول‘ مغوی‘ مظلوم اور مفلوک الحال عوام کا پہلا نہ سہی‘ لیکن دوسرا‘ تیسرا نمبر یقینا ضرور ہوگا۔ درجہ بندی کے تناظرمیں اگر دیکھا جائے‘ تو ہماری قوم یقینا ”پرلے درجے‘‘ میں ہی شمار ہوتی ہے۔ بیوروکریسی میں وسیع پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار یکدم متحرک ہو گئے ہیں اور گوجرانوالہ کے پانچ افسران بھی معطل کر دئیے ہیں۔ اُن کی ان ”آنیوں جانیوں‘‘ کو سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کی پیروڈی قرار دیا جارہا ہے۔ دور کی کوڑی لانے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ اب نمائشی دورے کریں گے ‘جبکہ انتظامی مشینری کا کنٹرول کہیں اور ہوگا۔ البتہ ظاہر یہی کیا جائے گا کہ انتظامی مشینری کی کارکردگی وزیراعلیٰ کے دوروں اور بھاگ دوڑ کا ہی نتیجہ ہے۔ اس ڈیزائن کو ”لپ سنگنگ‘‘ بھی کہا جاسکتا ہے‘ یعنی وزیراعلیٰ صرف ہونٹ ہلائیں گے‘ جبکہ گانے والے کوئی اور ہوں گے اور دیکھنے والے یہی سمجھیں گے کہ یہ ” ترانے‘‘ وزیراعلیٰ ہی گا رہے ہیں۔تازہ خبر کے مطابق تحریک انصاف کے اقتصادی چیمپئن اسد عمر وزارتِ خزانہ کے قلمدان سے مستعفی ہو چکے ۔ اب دیکھتے ہیں کہ وطن ِ عزیز کی معیشت کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ کسی سیانے ٹھیک ہی کہا ہے کہ جب وقت برا ہوتا تو اونٹ پہ بیٹھے بھی کتا کاٹ جاتا ہے۔ یہ برا وقت یونہی نہیں آگیا یہ وقت اسد عمر نے انتھک محنت اور دن رات کوششوں کے بعد دیکھا ہے۔ ڈھٹائی اور میں نہ مانوں کی مسلسل پالیسی کے بعد وہ ”ہینڈزاَپ‘‘ کر گئے ہیں۔ ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے لے کر گرمیوں کی تعطیلات کی فیسوں تک حکومت تاحال بے بس دکھائی دیتی ہے۔ وزیراعظم کے واضح اور دوٹوک احکامات کے باوجود ادویات کی قیمتوں میں کمی کے لیے زبانی جمع خرچ زور و شور سے جاری ہے‘ لیکن ادویات کی پرانی قیمتوں کا بحال کرنا حکومت کے بس کی بات نظر نہیں آتی ۔اس سلسلے میں حکومت کی توجہ اور سنجیدگی ثانوی ہے۔ اگر حکومت واقعی ادویات کی پرانی قیمتیں بحال کر کے عوام کو کچھ ریلیف دینے میں سنجیدہ اور نیک نیت ہے تو اس کا ایک انتہائی سادہ اور دو ٹوک فارمولہ پیش خدمت ہے کہ ایس آر او 1610 واپس لے لیا جائے ۔ جس سے فوری طور پر سابقہ قیمتیں از خود بحال ہو جائیں گی‘ لیکن یہ جرأ ت اور حوصلہ کرے کون؟ ایس آر او واپس لینا بین الاقوامی دوا ساز کمپنیوں کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ ان کمپنیوں کے غیر معمولی دباؤ اور اثرورسوخ کا سامنا کرنا حکومت کے بس کی بات دکھائی نہیں دیتی۔ اس تناظر میں غیر ملکی بھاری سرمایہ کاری بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے‘ تاہم حکومت مصلحتوں اور مجبوریوں پر مبنی اقدامات اور نمائشی کارروائیوں سے پرہیز کرے اور ادویات کی قیمتوں میں کمی کا ”لالی پاپ‘‘ دینا بند کرے اور اپنے اردگرد موجود ان عناصر کا گریبان پکڑے‘ جن کی ملی بھگت سے ادویات کی قیمتیں بڑھا کر غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی سے بین الاقوامی دوا ساز کمپنیوں کی تجوریاں بھری گئی ہیں۔