دنیا کے پہلے ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی پیدائش 25 جولائی 1978 کو برطانیہ میں ہوئی تھی مگر ہمارے لیے یہ امر انتہائی خوش کن اور اطمینان کا باعث ہونا چاہیے کہ پاکستان کی فوجی لیبارٹری ایک برس قبل جولائی 1977 ہی میں اس قابل ہو چکی تھی کہ سیاسی ٹیسٹ ٹیوب بے بیز کی پیدائش کے اچھوتے اور منفرد تجربے کو کامیابی سے ممکن بنا سکے۔5 جولائی 1977 کو ملک میں قائم ہونے والی فوجی تجربہ گاہ میں جو سیاسی تجربہ کیا گیا اس سے قوم کو 4 روز قبل ہی دبے الفاظ میں آگاہ کر دیا گیا تھا۔ جنرل ضیا الحق کی حلیف اول جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور اپنی کتاب “اور الیکشن نہ ہو سکے” میں لکھتے ہیں کہ یکم جولائی 1977 کو لاہور کے ایک کثیر الاشاعت روزنامے میں ایک غیر معروف تنظیم “وطن پارٹی” کی جانب سے صفحہ اول پر درج ذیل اشتہار شائع ہوا۔”الیکشن دوبارہ ہوں یا سہ بارہ، جو سیاست دان اپنے پیدا کیے ہوئے مسائل کو حل نہیں کرسکتے وہ وطن کی معاشی بدحالی، عوامی مشکلات اور خانہ جنگی کے رجحانات کو کیا حل کرسکیں گے۔ مانگی ہوئی عقل، پیسہ، ہتھیار اور نظام، زندہ قوموں کی نشانیاں نہیں ہوتیں۔”اگرچہ مارشل لاء کے نفاذ سے صرف چند دن قبل یہ اشتہار اصل میں قوم کے “نجات دہندہ ” مارشل لاء کی جلد آمد کی پہلی نوید تھی مگر وہ کیا ہے نا کہ ہم ٹھہرے “اشٹریٹ فارورڈ” جو دبی یا ڈھکی چھپی نہیں بلکہ صاف صاف بات پر یقین رکھتے ہیں، جیسے مردِ مومن مردِ حق، ضیاالحق ضیاالحق کے دور میں پی ٹی وی پر چلنے والا اشتہار کہ “ہم تو جانیں سیدھی بات، صابن ہو تو سات سو سات”۔ اور یہ سات سو سات وہ صابن تھا جو نہ صرف سات خون معاف بلکہ سات سو سات داغ بھی صاف کردیتا تھا۔پروفیسر غفور، جو قومی اتحاد کے اس وفد کا بھی حصہ تھے، وہی قومی اتحاد جو پیپلز پارٹی حکومت کی مذاکرتی ٹیم سے گفت و شنید کر رہا تھا، اپنی کتاب میں آگے چل کر لکھتے ہیں “تیسرا مارشل لاء ایسے دبے پاؤں ملک پر مسلط ہوا کہ اس کے قدموں کی چاپ بھی سنائی نہیں دی”۔ مگر تاریخ بتاتی ہے کہ 5 جولائی 1977 کو ہونے والی فوج کی اس کارروائی کو جسے “آپریشن فیئر پلے” کا نام دیا گیا کوئی ایسا اچانک اور غیر متوقع اقدام بھی نہیں تھا۔ سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد عرصے سے اس خدشے کا اظہار کر رہے تھے۔ ان کے خیال میں اس کے لیے پس پردہ تیاریاں ہو رہی تھیں اور اور فضا کو ایسے سازگار بنایا جا رہا تھا کہ مارشل لاء لگنے کے بعد قوم اسے درپیش مسائل کا واحد حل سمجھ کر خوش دلی کے ساتھ اس کا استقبال کرنے کے قابل ہوسکے۔قومی اتحاد کے وفد سے مذاکرات کرنے والی پیپلز پارٹی کی مذکراتی ٹیم کے رکن اوراس وقت کے وزیراطلاعات مولانا کوثر نیازی اپنی کتاب “اور لائن کٹ گئی” میں لکھتے ہیں کہ 4 اور 5 جولائی کی درمیانی رات کو جو کچھ ہوا وہ مارشل لاء کا نقطہ آغاز ہرگز نہیں تھا بلکہ خشت اول میں کجی تو بہت پہلے آچکی تھی۔کوثر نیازی آگے چل کر جو فرماتے ہیں اس کا لب لب لباب کچھ یوں ہے کہ 4 جولائی 1977 کی شام کابینہ کا اجلاس تھا۔ بھٹو غیر معمولی طور پر سنجیدہ تھے۔ جنرل ضیاالحق بھی اس اجلاس میں موجود تھے۔ اجلاس ختم ہوا تو مسٹر بھٹو اپنے کمرے میں چلے گئے۔ جنرل ضیا بھی ان کے ہمراہ تھے۔ وہ تقریباً 10 منٹ تک مسٹر بھٹو کے ساتھ رہے۔ جنرل ضیاالحق کمرے سے باہر نکلے تو ان کے چہرے کا رنگ بدلا ہوا تھا اور وہ بے حد عجلت میں نظر آتے تھے۔ ان کی عادت تھی کہ وہ ہاتھ ملاتے وقت ایک ہاتھ سے مخالف فریق کا ہاتھ کلائی سے پکڑ کر بڑی گرم جوشی سے مصافحہ کرتے تھے اور کافی دیر تک ہاتھ تھامے رکھتے تھے۔ اس رات یوں لگا جیسے وہ۔۔۔ ہاتھ ملا نہ رہے ہوں، ہاتھ چھڑا رہے ہوں۔وزیراعظم بھٹو سے اس رات عجلت میں ہاتھ چھڑانے کے بعد، آنے والے دنوں میں جنرل ضیا نے خواجہ صفدر (وزیر دفاع خواجہ آصف کے والد) اور جاوید ہاشمی (مشہور باغی سیاست دان) سمیت بیسیوں سیاست دانوں سے ہاتھ ملایا مگر مرتے دم تک ان کا دست شفقت جس خوش قسمت سیاستدان کے سر پر رہا وہ بلاشبہ نواز شریف ہی ہیں۔5 جولائی 1977 کے کامیاب فوجی تجربے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ٹیسٹ ٹیوب بے بیز میں سے سب سے لمبی اور کامیاب سیاسی عمر نواز شریف نے پائی۔ وہی جنہوں نے ضیا مشن سے وابستگی کا علم بلند کرتے ہوئے 90 کی دہائی میں بھٹو کی بیٹی کا ناطقہ بند کیے رکھا اور انہیں کبھی کسی کی ایما پر سیکیورٹی رسک کا لقب دیا تو کبھی کرپٹ قرار دیا۔جولائی 1978 میں برطانیہ میں پیدا ہونے والی دنیا کی پہلی ٹیسٹ ٹیوب بے بی چار دہائیوں کی ہوچکی لیکن پاکستان کے “سیاسی ٹیسٹ ٹیوب بے بیز” ضعیف ہوچکے ہیں۔ یہ کتنا “بے نظیر” اتفاق ہے کہ ضیا دور میں شروع ہونے والی “شریف سیاست” ضیا کے مارشل لا کے 40 برس بعد آج اس لیے پیچ و تاب کھا رہی ہے کہ 5 جولائی کو مریم نواز کو بقول ن لیگی وزرا “بدمعاش جے آئی ٹی” کے سامنے پیش ہونا پڑ رہا ہے۔