سرینگر(ویب ڈیسک) بھارت نے کشمیر ہڑپ کر لیا،خصوصی حیثیت ، الگ پرچم اور آئین کا اختیار ختم ہوگیا،بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں شدید ہنگامہ، اپوزیشن کاواک آئوٹ، مودی حکومت کے اقدام کی مذمت، مقبوضہ کشمیر کی بھارتی نواز جماعتیں بھی چلا اٹھیں، بھارتی وکلا اقدام چیلنج کرینگے، کانگریسی رہنما کا کہناہےکہ مسلمانوں کو اقلیت میںکرنے کیلئے اقدام، تاریخ ثابت کریگی کتنی بڑی غلطی کی،غلام نبی آزاد نے کہاکہ بھارتی وزیر اعظم نے بھارتی آئین کا قتل کردیا، ہم اپنے خون سے اس کی حفاظت کرینگے،محبوبہ مفتی کاکہناتھاکہ بھارت سے الحاق اور دو قومی نظریےکی مخالفت کا فیصلہ غلط ثابت ہوگیا،عمر عبداللہ نے کہاکہ یک طرفہ اور چونکا دینے والا فیصلہ کشمیریوں کے بھروسے کے ساتھ دھوکاہے،ادھر بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہاکہ مودی نے اپنا انتخابی وعدہ پورا کرکےنہرو کی غلطی درست کردی،بھارتی وزیر خزانہ نے کہاکہ بھارت نے 70 سال فیصلے کا انتظار کیا، دوسری جانب بھارت نے مزید 70ہزار فوج مقبوضہ کشمیر بھیج دی ، محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گرفتار کرلیاگیا، وادی میں کرفیو نافذ کردیاگیا،بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے مودی حکومت کا اقدام غیر قانونی قرار دیتے ہوئے صوبے میں حق اور مخالفت میں مظاہروں پر پابندی لگادی۔تفصیلات کے مطابق بھارت نے بین الاقوامی قوانین اورجموںوکشمیرکے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پامال کرتے ہوئے پیر کو بھارتی آئین کی دفعات 370اور35A کومنسوخ کردیا اور آئین کے تحت مقبوضہ علاقے کو حاصل خصوصی حیثیت ختم کردی،بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو دوحصوں میں تقسیم کرکے وادی کشمیر اور جموں خطے کو یونین ٹیریٹوری قراردیا جس کی اپنی قانون ساز اسمبلی ہوگی جبکہ لداخ قانون ساز اسمبلی کے بغیر مرکز کے زیر انتظام علاقہ ہوگا، حکم نامے کے نفاذ سے بھارت مقبوضہ علاقے میں بھارتی شہریوں کو بساکرآبادی کا تناسب اور مقامی کشمیریوں کو اقلیت میں تبدیل کرسکتاہے،اس طرح بھارت نے جموں وکشمیر کے 92سالہ پرانے اسٹیٹ سبجیکٹ قوانین تبدیل کردیئے۔ بھارتی حکومت کی طرف سے دفعہ 370کو منسوخ کرنے کے یکطرفہ فیصلے سے مقبوضہ علاقے میں بڑھتی ہوئی غیریقینی صورتحال کے دوران قابض انتظامیہ نے وادی کشمیر اورجموں میں کرفیو نافذ کرکے لوگوں کی نقل وحرکت اورعوامی جلسوں اور ریلیوںکے انعقادپر مکمل طورپرپابندی عائد کردی ہے، تمام تعلیمی اداروں کو بند کردیاگیا ہے جبکہ پورے جموںوکشمیرمیں انٹرنیٹ سروسز معطل اور آج ہونے والے تمام امتحانات ملتوی کردیے گئے ہیں،وادی کشمیر اور جموں خطے میں اضافی فورسز تعینات کردی گئی ہیں،سول سیکریٹریٹ، پولیس ہیڈکوارٹرز، ہوائی اڈوں اور دیگر سرکاری اداروں سمیت اہم تنصیبات کی سکیورٹی کیلئے بھارتی فوجیوں کی بڑی تعداد تعینات کردی گئی ہے، سرینگر اور دیگر شہروں کے داخلی اور خارجی راستوں پر رکاٹیں کھڑی کردی گئی ہیں، سید علی گیلانی اور میرواعظ عمرفاروق سمیت تمام حریت قیادت کو گھروں اورجیلوں میں نظربند کردیا گیا ہے۔بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کی جانب سے راجیہ سبھا میں پیش بل کے حق میں 125جبکہ مخالفت میں 61ووٹ آئے۔بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی صدر رام ناتھ کووند نے مذکورہ بل پر دستخط کردیے ہیں جس کے بعد اسے قانون کا درجہ حاصل ہوگیا ۔ہندو انتہا پسند بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے راجیہ سبھا میں خطاب کے دوران اپوزیشن کی جانب سے شور شرابہ اور ہنگامہ آرائی کی گئی،امیت شاہ نے کہا کہ مناسب وقت آنے پر جموں و کشمیر کا ریاست کا درجہ بحال کردیا جائے گا تاہم اس میں وقت لگ سکتا ہے، کشمیر جنت تھا ، ہے ا ور رہے گا۔مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھارت کی جانب سے وادی کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہ کہ اس فیصلے کے برصغیر پر تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے،مودی سرکار کا فیصلہ مقبوضہ کشمیر کی لیڈر شپ کا 1947 کے بھارت سے الحاق نہ کرنے کے فیصلے سے متصاد م ہے، بھارتی حکومت کا یک طرفہ فیصلہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے، بھارت کشمیر میں اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہو گیا ہے، انہوں نے کہاکہ مقبوضہ کشمیر کی لیڈرشپ کا دو قومی نظریہ ٹھکراتے ہوئے بھارت سے الحاق کا فیصلہ غلط ثابت ہوگیا،آج بھارتی جمہوریت کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، بھارتی حکومت جموں و کشمیر کو غزہ کی پٹی کی طرح بنانا چاہتی اور کشمیر کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہتی ہے جو اسرائیل فلسطین کے ساتھ کر رہا ہے،بھارت کو کشمیر کا علاقہ چاہیے وہ یہاں کے عوام کیلئے فکرمند نہیں، بھارتی حکومت کا ارادہ مسلمانوں سے پاک انڈیا بنانے کا ہے، اس یکطرفہ فیصلے کے برصغیر پر دور رس اور تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے،جن بوتل سے باہر آچکا ہے اور کچھ عرصہ بعد انہیں یہ نہیں علم ہوگا کہ اسے واپس بوتل میں کیسے بند کریں اور اس کا احساس انہیں کچھ عرصہ بعد ہوگا،اس اقدام نے کشمیر کا معاملہ مزید الجھا دیا ہے اب اس کا حل مشکل دکھائی دیتا ہے، اس واقعے نے عالمی برادری کو بھی یہ جاننے کا موقع دیا کہ یہاں کیا ہو رہا ہے کیونکہ آئینی تعلق ناجائز قبضہ میں تبدیل ہو گیا ہے۔بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما غلام نبی آزاد نے مودی سرکار کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ آج بی جے پی نے آئین کا قتل کر دیا ہے، ہم بھارتی آئین کے ساتھ کھڑے ہیں اور اپنی جانوں سے بھارتی آئین کا تحفظ کریں گے۔سابق وزیر اعلیٰ مقبوضہ کشمیر عمر عبداللہ نے اپنے ردعمل میں کہا کہ بھارتی حکومت کا یک طرفہ اور چونکا دینے والا فیصلہ کشمیریوں کے بھروسے کے ساتھ دھوکا ہے، آرٹیکل 370سے متعلق ہمارے خدشات بدقسمتی سے درست ثابت ہوئے، آگے ایک طویل اور سخت جنگ ہے جس کے لیے ہم تیار ہیں،ادھر بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے بعد اپنے مختلف شہروں سے مزید 8 ہزار فوجی خصوصی طیاروں کے ذریعے سری نگر پہنچا دیے ہیں۔ادھر بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ امرندر سنگھ نے نئی دہلی کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 370کو ختم کرنے کے اقدام کو مکمل طور پر’’ غیر آئینی‘‘ قرار دیتے ہوئےکہاکہ بھارت کے آئین کو قانونی دفعات کی پیروی کیے بغیر دوبارہ لکھا گیا، اس طرح کے تاریخی فیصلے کو صوابدیدی انداز کے ذریعے نہیں لینا چاہیے تھا،انہوں نے کہا کہ یہ ایک بری مثال قائم کرے گا کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مرکز صرف ایک صدارتی فرمان کا نفاذ کرکے ملک میں کسی بھی ریاست کی تنظیم نو کرسکتی ہے۔اس موقع پر امرندر سنگھ نے ریاست میں کسی بھی قسم کا جشن یا احتجاج کو بھی ممنوع قرار دیا کیونکہ اس کی بنیاد پر بدامنی ہوسکتی ہے۔بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ نے کہا کہ اس معاملے پر کوئی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس حساس ترین معاملے پر مقررہ طریقہ کار کے بعد فیصلہ لینا چاہیے تھا، صدارتی حکم نے موثر طریقے سے آئینی ترمیم کے لیے 2تہائی اکثریت کی پارلیمانی ضرورت کو بائی پاس کیا، کسی بھی اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور نئی دہلی کے اس یکطرفہ فیصلے میں دیگر سیاسی جماعتوں سے مشاورت نہیں کی گئی۔راجیہ سبھا میں خطاب کے دوران سینئر بھارتی وزیرپرکاش جوادکار نے کہاکہ آج ایک تاریخی کام مکمل کرلیا گیا،اب کشمیرمیں امن ہے، بھارتی اقدام کو دنیا بھر میں سراہا جارہا ہے کیونکہ ناانصافی ختم ہوگئی۔بھارتی وزیر خزانہ نرمالا سیتا رامن نے کہاکہ بھارت نے اس اقدام کیلئے 70 سال انتظار کیا، یہ کوئی اچانک ہونے والا فیصلہ نہیں۔ راشتریا جنتا دال پارٹی کے رہنما و اپوزیشن ممبر منوج جھا کاکہناہےکہ ہم نے کشمیر کو فلسطین بننے کے لئے راستے کھول دیے ،میں حکومت پر زور دیکر کہتا ہوں کہ اپنی انا ختم کرکے کشمیریوں کو قبول کیاجائے۔ اپوزیشن جماعت ماروملارچی دراویدا منیترا کازگم کے سربراہ اور رکن راجیا سبھا ویکو کا کہنا تھا کہ حکومت نے کشمیر کے عوام کے جذبات سے کھیلا ہے ۔بی جے پی کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ آپ کشمیری عوام کے جذبات سے کھیل چکے ہیں، جب اضافی فوجی اہلکاروں کو وہاں تعینات کردیا گیا تھا تو میں پریشان تھا، کشمیر کوسوو، ایسٹ تیمر یا جنوبی سوڈان نہیں بننا چاہیے۔نیشنل دیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کے اتحادی جنتا دل کے رہنما اور راجیا سبھا کے رکن کے سی تیاگی کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے آرٹیکل 370 کی تبدیلی کی حمایت نہیں کی تھی۔بھارت کی کمیونسٹ پارٹی کی رہنما پولیٹبرو کویتا کرشنن نے بی جے پی کے فیصلے کو ‘بغاوت’ قرار دیا اور ایک ٹویٹ میں نئی دہلی میں احتجاج کی کال دے دی۔ ان کا کہنا تھا کہ مودی حکومت کی ایما پر صدارت حکم نامہ آئین کے خلاف بغاوت ہے، کالے دھن کو سفید کرنا کوئی حل نہیں ہے، یہ بغاوت کشمیر کا حل نہیں۔کمیونسٹ پارٹی کی رہنما نے کہا کہ رات کے اندھیرے کی دستک کشمیر پہنچی اور جلد ہی پورے بھارت میں پہنچے گی اور مشترکہ احتجاج ہوگا۔ادھربھارت میں قانونی ماہرین اور سپریم کورٹ کے وکلا نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کرنے کے حکومتی اقدام کو چیلنج کرنے کا اعلان کردیا ہے ، اس معاملے پرمودی حکومت کو قانونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جبکہ نئی دہلی میں وکلا کا ایک گروہ اس معاملے پر آئینی درخواست پر کام کررہا ہے۔حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کے بعد ماہرین قانون نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو ایک بڑی مشکل یہ پیش آسکتی ہے کہ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں کوئی حکومت نہیں ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے وکیل اخیل سبال کا کہنا تھا کہ ‘اگر صدارتی حکم نامہ جاری ہوا تھا تو اب وہ نافذالعمل ہے، کیا وہ تمام معاملات کا احاطہ کر رہا ہے اور یہ ایک قانونی مسئلہ ہوسکتا ہے۔ماہر قانون مالا ویکا پراساد کا کہنا تھا کہ ‘تبدیلی کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی حکومت کو کیسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے اگر ریاست میں ایک سال سے صدارتی حکم نامہ نافذ ہے۔بھارتی وکلا کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی پر کئی آئینی درخواستیں دائر کی جاسکتی ہیں اور نئی دہلی میں وکلا کا ایک گروہ آئینی درخواست کے حوالے سے پہلے ہی کام کررہا ہے، بھارتی سپریم کورٹ بھی حکومت کی جانب سے منسوخ کی گئی خصوصی حیثیت کے معاملے پر درخواست سن سکتا ہے۔