اسلام آبادیس اردو نیوز)ولاد سوم ڈریکولا ایک حقیقی زندگی کا کردار تھا جس کو مغربی دنیا میں ڈریکولا ڈے کے طورپر منایا جاتا ہے، آخر ڈریکولا میں ایسا کیا تھا کہ مغربی دنیا اسے اپنا وار ہیرو کے طورپرجانتی ہے۔ دراصل ڈریکولا حقیقی زندگی میں عثمانیہ خلافت کا سب سے بڑا دشمن تھا۔جو اپنے دشمنوں کو کیلوں میں پرونے کا شوق رکھتا تھا۔ ولاد ڈریکولا نے سلطان محمد فاتح قسطنطنیہ کے مقابلے میں آنے کی جرات کی اور انتہائی غارت گری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی مشکلات میں اضافہ کیا۔
جی ہاں اسی بنا پر مغربی دنیا ترکی کے سلطان غازی الطغرل کے پوتے سلطان محمد دوئم کے دشمن ولاد ڈریکولا کے یوم پیدائش کو ڈریکولا ڈے کے طور مناتی ہے ۔ ولاد ڈریکلولا رومانیہ کے ایک قصبے میں پیدا ہوا ۔
ولاد دی امپیلر کون تھے؟
انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق دریائے ڈینیوب کے علاقے میں ایک ریاست والیچیا کے ایک سے زیادہ بار حکمران رہنے والے شہزادے ولاد دی امپیلر کا پورا نام ولاد سوم ڈریکولا تھا۔ ان کی پیدائش سنہ 1431 اور انتقال سنہ 1476 میں ہوا۔ وہ ٹرانسلوینیا میں پیدا ہوئے اور ان کا انتقال آج کے رومانیہ کے دارالحکومت بخارسٹ کے شمال میں ایک علاقے میں ہوا۔ رومانیہ کے مؤرخ فلوریسکو اور مکینلی لکھتے ہیں کہ ڈریکولا کا زمانہ عثمانی سلطنت میں ’دو عظیم سلطانوں‘ مراد دوم (سنہ 1421-1451) اور محمد دوم (1451-1481) کا زمانہ تھا اور انھوں نے لکھا کہ ’(قسطنطنیہ کے فاتح) سلطان محمد دوم کے ساتھ تو ہمارا نوجوان شہزادہ (ڈریکولا) بھی جوان ہوا تھا۔‘رومانیہ کے مؤرخ لکھتے ہیں کہ یہ دونوں عثمانی سلطان انتہائی مہذب اور دنیادار شخصیات کے مالک تھے۔ ’وہ دور اندیش سیاست دان تھے جنھوں نے اس زمانے میں یہودیوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو پناہ دے کر یورپ کو مذہبی رواداری کا سبق سکھایا تھا جب رومن کیتھولک چرچ ان (اقلیتوں) پر ’مظالم ڈھا رہا تھا۔‘ انسائکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق 15ویں صدی کے یورپ میں ولاد نے اپنے دشمنوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کی وجہ سے شہرت پائی۔ یہیں پر یہ بھی لکھا ہے کہ مؤرخوں کے ایک گروہ کا خیال ہے کہ بریم سٹوکر کے دنیا بھر میں مشہور ناول کا ڈریکولا دراصل یہی ولاد ہے۔
ولاد کے والد ولاد دوم ڈریکول تھے۔ انھیں ڈریکول کا خطاب اس زمانے میں رومی سلطنت کے فرمانرواہ (ہولی رومن ایمپرر) سِیگیسموند کی طرف سے ترکوں کی یورپ میں یلغار کو روکنے کے لیے بنائے جانے والے ’آرڈر آف ڈریگن‘ میں شمولیت کی وجہ سے دیا گیا۔ انسائیکلوپیڈیا کے مطابق لفظ ڈریکول لاطینی زبان کے لفظ ڈراکو سے نکلا ہے جس کا مطلب ڈریگن ہے۔ اور ڈریکولا کا مطلب ہے ڈریکول کا بیٹا۔ اس طرح ولاد دوم ڈریکول کے بیٹے کا نام ہوا ولاد سوم ڈریکولا۔ مؤرخ ڈریکولا کے لقب کی مختلف وجوہات بھی بتاتے ہیں جن میں سے ایک ہے کہ رومانیہ کی زبان میں ڈریکول کا مطلب ’ڈیول‘ بھی ہوتا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق ڈریکولا سنہ 1442 سے سنہ 1448 تک سلطنت عثمانیہ میں رہے اور پھر وہ اپنے والد اور بڑے بھائی کے قتل پر واپس والیچیا آئے۔ ڈریکولا کو اپنے والد کے تخت پر بیٹھنے میں والیچیا کی اشرافیہ سمیت اپنے چھوٹے بھائی کی مخالفت کا بھی سامنا تھا جنھیں سلطنت عثمانیہ کی حمایت حاصل تھی۔
وہ سنہ 1448 میں پہلی بار حکمران بنے لیکن انھیں جلد ہی ہٹا دیا گیا اور پھر انھیں اپنے والد کی گدی حاصل کرنے میں آٹھ برس کا عرصہ لگا۔ اس دوسرے دور حکمرانی میں انھوں نے وہ مظالم کیے جو ان کی شہرت کی وجہ بنے اور انھیں ولاد دی امپیلر یعنی میخیں گاڑ کر مارنے والے ولاد کا نام دیا گیا۔ یہ دور سنہ 1462 میں سلطان محمد دوم کی اس مہم کے بعد ختم ہوا جس کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے جس کو ولاد ڈریکولا کے ’ڈنڈوں سے لٹکتی لاشوں کے جنگل‘ کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ولاد سنہ 1476 میں تیسری اور آخری بار اپنے والد کی ریاست کا اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن اسی برس وہ 45 برس کی عمر میں ایک جنگ میں مارے گئے۔
ولاد سوم ڈریکولا اور فاتح سلطان محمد دوم
ان دونوں شہزادوں کی پہلی ملاقات غالباً سنہ 1442 میں اس وقت ہوئی جب ڈریکولا کے والد انھیں اور ان کے چھوٹے بھائی رادو ’دی ہینڈسم‘ کو سلطنت عثمانیہ کے ساتھ اپنی وفاداری کی ضمانت کے طور پر سلطان مراد دوم کی تحویل میں چھوڑ گئے تھے۔ مؤرخ بتاتے ہیں کہ اس وقت ولاد سوم ڈریکولا کی عمر گیارہ یا بارہ برس تھی اور چھوٹا بھائی رادو تقریباً سات سال کا تھا۔ اس وقت شہزادہ محمد بھی تقریباً ڈریکولا ہی کی عمر کے تھے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ اس وقت تک یورپ میں سربیا اور بلغاریہ عثمانیوں کے زیر تسلط آ چکے تھے اور سلطان مراد دوم صدیوں پرانی بازنطینی سلطنت کو آخری ضرب لگانے کی تیاری میں تھے۔ ولاد دوم ڈریکول جیسا کے پہلے ذکر کیا جا چکا ہے عثمانیوں اور رومن کیتھولک چرچ کے مخالفین کے لیے بنائے گئے ’آرڈر آف ڈریگن‘ کے رکن تو بن گئے تھے لیکن فلوریسکو اور ان کے ساتھی مؤرخ مکینلی نے لکھا ہے کہ وہ ایک شاطر سیاستدان تھے اور جیسے ہی والیچیا کی ریاست کے تخت پر ان کی گرفت مضبوط ہوئی انھیں احساس ہوا کہ خطے میں طاقت کا توازن عثمانیوں کے حق میں ہے۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اپنے سرپرست رومی سلطنت کے سلطان سیگیسموند کے انتقال کے فوراۙ بعد ولاد دوم ڈریکول نے ترکوں سے معاہدہ کر لیا۔
’ڈریکولا اور ان کے 300 ساتھی برسا میں سلطان مراد کے سامنے پیش ہوئے اور ایک شاندار تقریب میں والیچیا کے شہزادے نے باقاعدہ طور پر اپنی اطاعت کا اعلان کیا۔‘ بتایا جاتا ہے کہ کچھ عرصے بعد، سلطان مراد کے دل میں (جو دونوں مؤرخین کے مطابق معاہدوں کا پاس کرنے والے حکمران تھے) ولاد دوم کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو گئے۔ ولاد دوم طلب کیے جانے پر اپنے دو چھوٹے بیٹوں ڈریکولا اور رادو کے ساتھ سلطان کے سامنے حاضری کے لیے گئے۔ مؤرخین کے مطابق شہر کے دروازے پر ہی ترک فوجیوں نے ان کو زنجیروں میں جکڑ لیا اور دونوں بیٹوں کو ایک دور پہاڑی قلعے میں پہنچا دیا۔ ولاد دوم ڈریکول تقریباً ایک سال سلطان کے قیدی رہے اور اس دوران ان کا بڑا بیٹا میرچا جس کے سلطان سے اچھے تعلقات تھے والیچیا کے تخت پر بیٹھا۔ ڈریکول بالآخر قرآن اور بائبل پر عثمانیوں کی وفاداری کی قسم کھانے کے بعد آزاد ہوئے۔ ولاد دوم نے اپنی نیک نیتی ثابت کرنے کے لیے اپنے دونوں چھوٹے بیٹے بھی عثمانی تحویل میں چھوڑ دیے۔
ڈریکولا عثمانی سلطان کے دربار میں
ڈریکولا کے اگلے چھ سال اپنے والدین سے دور سلطنت عثمانیہ میں گزرے۔ وہ مقامی زبان نہیں بول سکتے تھے اور ان کا مذہب بھی مختلف تھا۔ ’یقیناً انھوں نے محسوس کیا ہو گا کہ ان کے اپنے لوگوں نے انھیں اکیلا چھوڑ دیا ہے۔ ڈریکولا سنہ 1448 اور ان کے بھائی رادو سنہ 1462 تک سلطنت عثمانیہ میں رہے۔
والیچیا کے حکمرانوں کی مشکل
والیچیا کا شمار ان علاقوں میں ہوتا تھا جہاں یورپ کے برعکس تخت کا وارث صرف بڑا بیٹا نہیں ہوتا تھا بلکہ سب بیٹے اقتدار حاصل کرنے کا حق رکھتے تھے۔ اس لیے اگر ایک بیٹے کو مغرب کی بڑی طاقت رومی سلطنت یا ہنگری کے بادشاہوں کی حمایت مل جاتی تھی تو دوسرا عثمانیوں کا سہارا حاصل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ یہی جھلک والیچیا کی ریاست کے تخت کے لیے حکمران خاندان کے مختلف افراد کی کوششوں میں نظر آتی ہے۔ فلوریسکو اور مکینلی نے لکھا ہے کہ ایک طرف ولاد کیتھولک اداروں کو نظر انداز کر کے رومی سلطنت کے حکمران سلطان سیگیسموند کو ناراض نہیں کر سکتے تھے اور انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ والیچیا کی روایات کے مطابق کسی بھی حکمران کے لیے آرتھوڈوکس مسیحی ہونا لازمی تھا۔ آرتھوڈوکس اور کیتھولک مسیحیوں میں اختلافات کی تاریخ بہت پرانی اور تلخ تھی۔ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ آرتھوڈوکس بازنطینی سلطنت کو سلطنت عثمانیہ کے خلاف لڑائی میں رومن کیتھولک یورپ سے مدد ملنا بہت مشکل پیش آئی۔یرغمال شہزادے ولاد سوم ڈریکولا کی تربیت عثمانی دربار میں جب چھوٹی ریاستوں کے شہزادے یرغمال بن کر آتے تھے تو اس کا ایک مقصد یہ ہوتا تھا کہ ان کو اپنا وفادار بنایا جائے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ان شہزادوں کی تربیت یہ سوچ کر کی جاتی تھی کہ اگر ان میں سے کوئی مستقبل میں اپنی ریاست کا حکمران بنے تو اس کی وفاداری سلطنت عثمانیہ کے ساتھ ہو۔
اس کی غارت گرفطرت کا واقعہ ملاحظہ کریں! یہ منظر تھا ایک میدان کا جہاں ایک میل کے علاقے میں ہر طرف نیم دائرے کی شکل میں تقریباً 20 ہزار نیزے زمین میں گڑے تھے اور ہر ایک پر ایک ترک قیدی کی کٹی پھٹی لاش پروئی ہوئی تھی۔
دو سب سے اونچے نیزوں پر سلطنت عثمانیہ کے ایک علاقائی عہدیدار حمزہ پاشا اور یونانی کاتاوولینوس کی لاشیں تھیں جن کی ہلاکت کو کئی ماہ گزر چکے تھے۔ ان کے جسموں پر کسی وقت میں موجود قیمتی لباس کی باقیات ہوا میں لہرا رہی تھیں جبکہ فضا میں موجود واحد بو سڑے ہوئے انسانی گوشت کی تھی۔
یونانی مؤرخ چالکونڈائلز لکھتے ہیں کہ یہ وہ منظر ہے جس نے جون 1462 میں یورپ کی ریاست ٹرانسلوینیا کے شہر تیرگووستا سے 60 میل دور سلطنت عثمانیہ کے ساتویں سلطان محمد دوم کی فوج کے ہراول دستے کا استقبال کیا تھا۔ سلطان محمد دوم جب 17 مئی سنہ 1462 کو استنبول سے یورپ میں دریائے ڈینیوب کے پار والیچیا کی ریاست کے حکمران، شہزادے ولاد سوم ڈریکولا، کو سبق سکھانے کے لیے نکلے تھے تو کم ہی لوگوں نے سوچا ہو گا کہ اس مہم کا اس طرح کا انجام ہو گا۔
مؤرخ رادو فلوریسکو اور ریمنڈ مکینلی نے اپنی کتاب ’ڈریکولا: پرنس آف مینی فیسز، ہِز لائف اینڈ ٹائمز‘ میں یونانی مؤرخ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس منظر نے سلطان محمد پر ایسا اثر کیا کہ انھوں نے کہا ’۔۔۔۔اس طرح کے شخص سے اس کی زمین چھیننا بہت مشکل ہے۔‘
انھوں نے لکھا ہے کہ اس رات قیام کے لیے سلطان نے ترک کیمپ کے گرد گہری خندق کھدوائی اور اگلے روز فوج کو یہ کہتے ہوئے واپسی کا حکم دیا کہ یہ علاقہ اتنا اہم نہیں کہ اس کی اتنی قیمت دی جائے۔
والیچیا پہلے بھی سلطنت عثمانیہ کی تابع ریاست تھی جو اس مہم کے بعد بھی رہی لیکن مؤرخین کے مطابق اس کی حیثیت سلطنت عثمانیہ کے صوبے میں بدلی نہیں جا سکی۔ سلطان وہاں سے خود تو لوٹ گئے لیکن ولاد ڈریکولا کے خلاف مہم ختم نہیں ہوئی۔ وہ ڈریکولا کے بھائی رادو کو ترک فوج کے ایک حصے کے ساتھ وہیں چھوڑ آئے تھے۔ اس مہم کے نتیجے میں ڈریکولا کو اپنی ریاست چھوڑ کر فرار ہونا پڑا اور ان کی جگہ سلطنت عثمانیہ کا حامی ان کا چھوٹا بھائی رادو ’دی ہینڈسم‘ مقامی اشرافیہ اور ان طبقات کی مدد سے سے تخت پر بیٹھا جو ڈریکولا کے مظالم سے تنگ آ چکے تھے۔ مؤرخ کیرولائن فنکل نے عثمانی سلطنت کی تاریخ پر اپنی کتاب ’عثمان کا خواب‘ میں والیچیا کے خلاف کارروائی کا مختصراً ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’سلطنت عثمانیہ کی طابع ریاست والیچیا کی طرف سے سالانہ نذرانہ نہ آنے اور اس کے بعد ان کے حکمران ولاد ڈریکولا کی طرف سے اشتعال انگیز اقدامات کی وجہ سے سلطان محمد نے 1462 میں دریائے ڈینیوب پار جا کر امن و امان بحال کرنے کا حکم دیا۔ کامیاب کارروائی کے بعد ولاد کے بھائی رادول کو، جو ولاد کے اچھے رویے کی ضمانت کے طور پر استنبول میں یرغمال تھا، ولاد کی جگہ حکمران بنا دیا گیا۔ ولاد خود ہنگری فرار ہو گئے۔‘
جب سلطان نے یورپ میں یہ مہم شروع کی تھی اس سے تقریباً دس برس قبل وہ صدیوں قائم رہنے والی طاقتور بازنطینی سلطنت کی آخری نشانی قسطنطنیہ کو فتح کر کے فاتح سلطان کا لقب حاصل کر چکے تھے۔ ان کی سلطنت ایک سے زیادہ براعظموں میں پھیل چکی تھی۔ اپنے آپ کو سکندر اعظم جیسے فاتحین کی لڑی میں دیکھنے والے اس سلطان کی نظریں اب یورپ میں دور تک دیکھ رہی تھیں۔
سنہ 1462 میں اس مہم میں ان کا نشانہ سلطنت عثمانیہ کی تابع ریاست والیچیا کے حکمران ولاد ڈریکولا تھے جو مؤرخین کے مطابق تین سال سے سلطان کے سامنے نذرانہ پیش کرنے کے لیے حاضر نہیں ہوئے تھے۔
اس کے علاوہ، فلوریسکو اور مکینلی جیسے مورخین لکھتے ہیں کہ قسطنطنیہ کے ساتھ ساتھ ’بلغاریہ، سربیا اور یونان کے زیادہ تر علاقوں پر قبضے کے بعد سلطان میں والیچیا کو اپنی سلطنت کا صوبہ بنانے کا خیال ایک قدرتی بات تھی اور اسی مقصد کی تکمیل کے لیے انھوں نے جرمنی سے مشرق کی طرف بہتے ہوئے کئی ملکوں سے گزر کر بحر اسود میں گرنے والے دریائے ڈینیوب کے علاقوں میں کارروائیوں کا حکم دیا تھا۔
دریائے ڈینیوب تاریخ میں مشرق سے فتح کی خواہش لے کر مغرب آنے والوں کے لیے اہم راستہ رہا ہے اور ریاست والیچیا اسی دریا کے شمالی کنارے پر واقع تھی۔ دس لاکھ سے کم آبادی والی اس ریاست کے حکمران خاندان اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان نسلوں سے کبھی اچھے کبھی برے تعلقات کا سلسلہ جاری تھا۔ فلوریسکو اور مکینلی لکھتے ہیں کہ اب ریاست کے نئے حکمران شہزادہ ولاد سوم ڈریکولا کی پالیسیوں سے ناخوش سلطان نے اس مسئلے سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ڈریکولا اور فاتح سلطان محمد دوم کے درمیان جنگ ہونا طے تھی سوال صرف یہ تھا کہ کب؟ اور’(فاتح قسطنطنیہ) سلطان محمد کے ساتھ اکھٹے جوان ہونے کی وجہ سے، ڈریکولا کو سلطان میں فتوحات کی خواہش کے بارے میں اچھی طرح معلوم تھا۔‘ محمد دوم کی سلطنت کے مقابلے میں ڈریکولا کا ملک بہت چھوٹا تھا لیکن مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس میں اپنے حکمران ہونے کا احساس سلطان محمد دوم کے مقابلے میں کسی طرح بھی کم نہیں تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ڈریکولا کا خطاب ایک اعزاز تھا۔
ایک نہیں دو ڈریکولا
آگے بڑھنے سے پہلے تذکرہ تاریخ کا جہاں دو ڈریکولا کا ذکر ملتا ہے۔ ایک وہ جس کا حالیہ دنوں میں 26 مئی کو منائے جانے والے ’ڈریکولا ڈے‘ کے حوالے سے ہر سال کی طرح ایک بار پھر دنیا بھر میں معمول سے زیادہ ذکر ہوا اور اس کی تصاویر شیئر کی گئیں۔ یہ ڈریکولا اپنے کسی شکار کی گردن میں دانت گاڑے بیٹھا ہے تو کہیں نوکیلے دانتوں سے ٹپکتے ہوئے خون کے ساتھ آسمان کی طرف دیکھ رہا ہے۔ اس سلسلے کا آغاز سنہ 26 مئی 1897 میں بریم سٹوکر کے ناول کی اشاعت کے بعد ہوا جس میں خون پینے والا یہ خیالی کردار ڈریکولا متعارف ہوا تھا۔ ڈریکولا کا یہ کردار تو شاید خیالی تھا لیکن ڈریکولا نام بالکل خیالی نہیں تھا۔ تاریخ میں ڈریکولا کہلائے جانے والا شہزادہ جس نے اپنے وقت کی سپر پاور کے سلطان کا مقابلہ کیا تھا ایک طرف اپنے مظالم کی وجہ سے بدنام ہوا تو دوسری طرف اسے رومانیہ میں قومی ہیرو کا درجہ بھی دیا گیا۔
نسبتاً ایک چھوٹی سی ریاست والیچیا کا یہ شہزادہ ولاد سوم ڈریکولا کہلاتا تھا۔ ڈریکولا کا مطلب تھا ڈریکول کا بیٹا۔ اس شہزادے کی تاریخ میں وجہ شہرت ہزاروں کی تعداد میں اپنوں اور غیروں کے جسم میں میخیں گاڑ کر مارنے والے حکمران کی ہے۔ اسی وجہ سے ولاد سوم ڈریکولا کو انگریزی زبان میں ’ولاد دی امپیلر‘ بھی کہا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تاریخ بتاتی ہے کہ بچپن میں فاتح سلطان محمد دوم اور ڈریکولا کا کچھ وقت اکٹھے بھی گزرا اور اس وقت ان کے استاد بھی ایک ہی تھے۔ ایک طرف مختلف براعظموں پر پھیلی مسلمان سلطنت کا شہزادہ اور ولی عہد اور دوسری طرف یورپ میں اس سلطنت کی کئی تابع ریاستوں میں سے ایک مسیحی ریاست کے حکمران کا بیٹا۔ یہ دونوں ایک چھت کے نیچے کیسے اکٹھے ہو گئے؟ یہ ذکر آگے چل کر، پہلے ڈریکولا کہلانے والے اس شہزادے کا تعارف۔