لاہور (ویب ڈیسک) وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار نے سرکاری اخراجات میں 550 ملین روپے کی کمی کی ہے اور 9 لاکھ کنال سرکاری اراضی بازیاب کروائی ہے۔موجودہ دور حکومت میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہو گیا ہے۔عثمان بزدار نے خاموشی کے ساتھ کام کیا ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب کی
نامور خاتون کالم نگار طیبہ ضیاء اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔مکمل کارکردگی بیان کرنے کیلئے کم سے کم چار گھنٹے کا وقت درکار ہوگا۔وزیراعلیٰ پنجاب نے صوبے میں ترقیاتی کام کیے۔وزیراعلیٰ کو وسیم اکرم پلس کہا جا ئے تو بے جا نہ ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ شیر شاہ سوری کی طرح عثمان بزدار کی بھی تعریف کر دینی چاہیے۔۔۔’’ شیر شاہ سوری آف پنجاب ‘‘کو سمجھنے کے لئے حقیقی شیر شاہ سوری آف ہندوستان کو بھی پڑھنا پڑے گا ؟۔حقیقی شیر شاہ سوری نے اپنی مملکت میں بہت سی اصلاحات نافذ کیں۔ اپنے تعمیری کاموں کی وجہ سے ہندوستان کے نپولین کہلائے۔ سنار گاؤں سے دریائے سندھ تک ایک ہزار پانچ سو کوس لمبی جرنیلی سڑک تعمیر کروائی جو آج تک جی ٹی روڈ کے نام سے موجود ہے۔ تاریخ دان شیر شاہ سوری کو برصغیر کی اسلامی تاریخ کا عظیم رہنما، فاتح اور مصلح مانتے ہیں۔ شیر شاہ سوری ایسا فرماں روا تھا جس کی ستائش نامور مؤرخین اور عالمی مبصرین کرتے رہے ہیں۔ وہ ہندوستان کا پہلا حکمران تھا جس نے عوامی فلاح کی جانب اپنی بھرپور توجہ دی اور ایسے ایسے کارنامے انجام دیے جو تاریخ کی کتب میں سنہرے حروف میں تو لکھے ہی گئے، ان کے نقوش آج تک موجود ہیں۔ ساڑھے پانچ سو سال قبل اس نے زرعی اصلاحات کا کام شروع کروا دیا تھا،
جس کی پیروی بعد کے حکمرانوں نے کی۔ شیر شاہ نے سہسرام سے پشاور تک گرینڈ ٹرنک روڈ یعنی جرنیلی سڑک کی تعمیر کروائی تھی اور اس کے کنارے کنارے سایہ دار اور پھل دار اشجار لگوائے، سرائیں تعمیر کروائیں اور سب سے پہلا ڈاک کا نظام نافذ کیا تھا۔ اگرچہ فرید خان المعروف شیر شاہ ایک معمولی جاگیردار کا بیٹا تھا۔ اس کے والد حسن خان سور کا خاندان افغانستان سے ہجرت کرکے ہندوستان آیا تھا اور وہ بابر کے معمولی جاگیردار تھے لیکن دلیر پرجوش اور جواں مرد اور اول العزم شیر شاہ نے مغل سلطنت کے بنیاد گزار بابر کے صاحبزادے ہمایوں کو ایک بار نہیں دو دو بار شکست دی۔ اْس کے بعد ہمایوں کو برسوں در بدری کی زندگی گزارنی پڑی اس در بدری کے دور میں ہی اکبر کی پیدائش ہوئی تھی جو بعد میں تاریخ کا اکبر اعظم بنا۔۔۔ شیر شاہ سور آف پنجاب پاکستان کے فضائل بلا شبہ حقیقی شیر شاہ سوری سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ایک دوست بتا رہے تھے کہ کومے میں پڑی ہوئی پنجاب حکومت کو ایک بار پھر تبادلوں کے وینٹی لیٹر پر ڈال کر ہوش میں لانے کی سعی کی گئی ہے۔ اگر ان تاریخی تبادلوں کے بعد بھی حالات درست نہ ہوئے تو چوہان صاحب کے شیر شاہ سوری تبادلوں کی فہرست چوتھی مرتبہ ترتیب دیں گے۔ ادھر سے ادھر کی ایکسر سائز تب تک جاری رہے گی جب تک تبادلے شیر شاہ سوری جیسے کارنامے سر انجام نہیں دیتے۔
ہندوستان کے ایک قابل ترین اور انصاف پسند فرمانروا شیر شاہ سوری نے مغل بادشاہ بابر اور اس کے بیٹے ہمایوں کے درمیان صرف پانچ سال ہندوستان پر حکومت کی اور ان پانچ سالوں میں شیر شاہ سوری نے عوامی خدمات اور فلاحی منصوبوں کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ آج صدیاں گزرجانے کے باوجود ان کے اثرات ہندوستانی تہذیب میں جوں کے توں موجود ہیں۔حقیقی شیر شاہ سوری کی اعلیٰ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے مغل بادشاہ بابر نے اسے سہسرام کا نظم و نسق سنبھالنے کی ذمہ داری سونپی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ شاہی دعوت کے موقع پر شیر شاہ سوری نے بادشاہ بابر کے سامنے سے گوشت کا ٹکڑا کھینچا اور بلاتکلف اسے کاٹ کاٹ کھانے لگا۔ بابر کو یہ سخت ناگوار گزری۔ یہ جو آج انڈیا اور پاکستان میں روپیہ کرنسی ہے اسے متعارف کروانے والے بھی حقیقی شیر شاہ سوری ہی تھے۔ اس کے علاوہ سلطنت میں امن و امان قائم کرنا، تجارت کو فروغ دینا، کسانوں کو سہولیتیں فراہم کرنا، ڈاک کے نظام کی اصلاح کرنے کے ساتھ ساتھ شیر شاہ سوری کا سب سے بڑا کارنامہ تمام ریاست میں عدل و انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کرنا تھا۔ شیر شاہ سوری کا عہد نامہ نامی کتاب میں ایک ایسا قصہ درج ہے جسے سن کر پوری سلطنت کانپ اْٹھی تھی۔ ایک بار سلطان شیر شاہ سوری کا بیٹا محمد شاہ عادل ہاتھی پر بیٹھا آگرہ کی گلیوں میں گھوم رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ایک حسین و جمیل دوشیزہ اپنے غسل خانے میں نہا رہی ہے۔ شہزادہ اس منظر میں ایسا محو ہوا کہ ہاتھی وہیں روک کر کھڑا ہوگیا۔
وہ مہاجن کی بیوی اور ایک حیا دار خاتون تھی۔ جب اس نے یہ تمام منظر دیکھا تو وہ خود کشی کی جانب راغب ہوئی۔لیکن اس کے شوہر نے اسے روک لیا کہ وہ شکایت لے کر بادشاہ شیرشاہ سوری کی عدالت میں جائے گا۔ دربار لگا ہوا تھا، مہاجن نے بھرے دربار میں شہزادے کی بے باکی کایہ تمام واقعہ کہہ سنایا۔ یہ سنتے ہی شیر شاہ سوری سخت غضب ناک ہوئے اور حکم جاری کیا کہ یہ مہاجن ہاتھی پر بیٹھ محمد شاہ عادل کے گھر جائے اور اس کی بیوی یعنی خود شیر شاہ سوری کی بہو کو برہنہ کرکے اس کے سامنے لایا جائے۔ یہ حکم سن کر پورا دربار کانپ اْٹھا، امراء اور اراکین نے شہزادے کی ناموس کی خاطر سفارشیں کیں لیکن شیر شاہ سوری کا حکم اٹل تھا۔ وہ مجرموں پر بالکل بھی نرمی کرنے کا روادار نہ تھا۔ جب مہاجن نے عدل و انصاف پر مبنی یہ فیصلہ سنا تو وہ شیر شاہ سوری کے قدموں میں گر پڑا اور درخواست کی کہ میں اپنے دعوے سے دستبردار ہوتا ہوں۔ اس واقعے کے بعد تمام ملک میں کسی زور آور کی ہمت نہ ہوتی کہ وہ کسی کمزور پر ظلم ستم ڈھائے۔پنجاب تر درکنار پورا پاکستان اس حقیقی شیر شاہ سوری کا منتظر ہے۔