تحریر: انیلہ احمد
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ قیامت کے روز اللہ پاک ارشاد فرمائے گا میرے جلال و عظمت کی وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے کہاں ہیں میں انہیں اپنے سائے میں بٹھاؤں گا آج میرے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہم نہیں جانتے محبت جو کائنات کو وجود میں لانے کا ذریعہ ہے۔
اب قصے کہانیوں تک کیوں محدود ہو گئی باغ میں اُن پھولوں کی طرح جو دیکھنے میں اپنی بہار دکھاتے خوشبو سے محروم دکھائی دیتے ہیں جیسے پھولوں سے خوشبو کاغذی پھولوں میں منتقل ہوگئی ان رشتوں کی طرح جو انسانی زندگی میں اہم ترین ضرورت اور لازم و ملزوم ہیں محبت کا تعلق کسی تہذیب نہ ہی کسی دین اور علاقے سے ہے یہ ایک ایسا جذبہ ہے جو دنیا کی ہر تہذیب و تمدن مذہب اور ملکوں میں شامل ہے جو روز اول سے کائینات کے وجود سے ہے محبت زمان و مکاں سے آزاد ہے وہیں اسے کسی زباں کی بھی ضرورت نہیں یہ جذبہ خُدائے بزرگ و برتر نے ہر انسان کو بخشا ہے محبت کے انگنت روپ ہیں کائنات کا وجود خوبصورتی سے وابستہ ہے اور خوبصورتی کا تعلق روح سے ہے ہر چیز اپنی طبعی ساخت پر خوبصورت ہے۔
یہ من کی آنکھ پر منحصر ہے کہ وہ اس چیز کو کن مناظر میں دیکھتی ہے کائنات کی ہر چیز کے ہونے کا قدرت کے پاس ایک فلسفہ موجود ہے شاز و ناذر ہی اس فلسفے تک اس فلسفے تک رسائی پا سکتا ہے انسان اپنی نا سمجھی میں ہر کسی سے محبت کا دعویٰ کرتا اور خود کو ٹھیک سمجھتا بعض اوقات ایسی راہ چن لیتا ہے جو تباہی کی طرف گامزن ہوتی ہے پھر ضروری ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ایکا لیکٹرک شاک (آزمائش ) کا ہلکا پھلکا جھٹکا دے کر اپنی طرف راغب کرےک یونکہ آزمائش بیدار کرنے کیلئے آتی ہے پریشان کرنے کیلئے نہیں وہ چونک کر ٹھہر کر سوچتا ہے کہ وہ کس راہ پر چل نکلا تھا کیا وہ بدی کا راستہ تھا ؟ یا نیکی کا؟۔
اس جھٹکے کے بعد اگر اس کی زندگی کا رخ اللہ کی طرف مڑ جائے تو سمجھ لیجیے وہ حالات کی کسی گردش کا شکار ہوا تھا جس ک وہ الجھے ہوئے حالات مین واضح نہیں کر سکا اور اگر اس کا رخ اس آزمائش یا جھٹکے کے بعد بدی کی جانب مڑ جائے تو جان لیں کہ وہ سزا وار تھا اللہ کا اگر وہ صراط مستقیم کی جانب ہے ت وہ راستہ اس فراخی کے ساتھ کشادہ کرتا ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے اس کی وجہ وہ محبت ہے جو اللہ اپنے بندوں سے کرتا ہے جیسے کہ ہم سب جانتے ہیں ماں سے 70 گنا زیادہ محبت کرتا ہے اور بندے کی توبہ کا شدت سےمنتظر رہتا ہے اللہ پاک کا فرمان ہے۔
اے آدم کی اولاد میں تجھ سے پیار کرتا ہوں تو بھی مجھ سے محبت رکھ ایک بار حضرت موسیٰ اللہ سے ہمکلام ہوئے تو اللہ پاک نے فرمایا اے موسیٰ تم مجھ سے کلام کرتے ہو تو ہمارے درمیان 70 فرشتے حائل رہتے ہیں لیکن جب میرے پیارے محبوب ً کی امت مجھ سے ہمکلام ہوگی ہمارے درمیان کوئی نہیں ہوگا کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو مجھے بغیر دیکھے میرے لئے بھوکا پیاسا رہ کر روزہ رکھیں گے اورافطار کے وقت وہ لوگ جو دعا مانگیں گے وہ قبول ہوگی میں ان کی دعا کبھی رد نہیں کروں گا یہ بھی اللہ کا اپنے پیارے بندوں سے محبت کا ایک انداز ہے جو محبت اللہ بندے سے کرتا ہے اس محبت کا کوئی پیمانہ نہیں اورہم انسان محبت کو حرص و لالچ کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں اور اسے درجہ بندی میں تقسیم کر دیتے ہیں۔
جیسے والدین کی محبت الگ بہن بھائی کی محبت کے تقاضے علیحدہ اولاد سے محبت کے رنگ جدا میاں بیوی کی محبت کا الگ انداز الغرض محبت کو مختلف رنگوں سے مزین کردیتے ہیں نہیں سوچتے ہر محبت سے بڑھ کر ہمیشہ قائم رہنےوالی محبت صرف اللہ سے محبت ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں انسنای محبت سوائے خود فریبی کے اور کچھ نہیں لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ کی محبت دنیا و آخرت میں حقیقی کامیابی کی واحد کنجی ہے ہمیشہ یہ بات یاد رکھیں دنیا کی محبت سے رب نہیں ملتا لیکن رب کی محبت سے دنیا اور آخرت دونوں مل جاتی ہیں کیونکہ اس کی محبت رحمت ہی رحمت ہے جس میں فلاح ہی فلاح ہے۔
تحریر: انیلہ احمد